بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کی شرم گاہ سے پانی آنے کا حکم


سوال

 شرم گاہ پانی آرہا ہے کیا اس حالت میں نماز پڑھ سکتی ہوں؟

جواب

شرم گاہ سے پانی آنے (لیکیوریا)  کی  مندرجہ  ذیل  دو  صورتیں ہوسکتی ہیں:

1)  سائلہ کو بیماری اتنی زیادہ ہے کہ کسی ایک  نماز کا مکمل وقت  سائلہ پر ایسا گزرا ہے  کہ  اسے اتنا وقفہ بھی نہیں  ملا ہے  جس میں وہ وضو کرکے پاکی کی حالت میں  اس وقت کی فرض نماز ادا کرسکے تو وہ معذور کے حکم میں ہے،اور معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر نماز کا وقت داخل ہونے  کے بعد ایک مرتبہ وضو کرلے اورپھر اس میں جتنی  چاہے نماز پڑھے ، اگر وضو کے بعد  لیکوریا  کی رطوبت (یعنی جس بیماری کی وجہ سے وہ معذور کے حکم میں ہے ) کے  علاوہ کوئی اور وضو توڑنے والی چیز  صادر ہو تو دوبارہ وضو کرے ورنہ دوبارہ  وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔اور سائلہ پر یہ حکم اس وقت تک باقی رہے گا جب تک کہ ایک مکمل نماز کا وقت سائلہ پر ایسا گزر جائے جس میں یہ رطوبت ایک لمحہ کے لیے بھی نہ آئی ہو۔

باقی  کپڑا پاک کرنے کے حکم میں یہ تفصیل  ہے کہ اگر اتنا وقفہ ملتاہو کہ کپڑادھوکرنماز پڑھے تو نماز کے درمیان میں وہ دوبارہ ناپاک نہ ہوتا ہو تب تو اس کے ذمے دھونا واجب ہےہوگا ، اوراگر یہ حالت ہو کہ کپڑا دھو کر نماز پڑھنے کے درمیان وہ پھرناپاک ہوجاتا ہو تو دھوناواجب نہیں ہوگا۔ 

2)  سائلہ کی بیماری اس نوعیت کی نہیں ہے  (یعنی کسی بھی نماز کا مکمل وقت اس طرح نہیں گزرا کہ اسے پاک ہوکر وقتی فرض نماز ادا کرنے کا بھی موقع نہ ملے) تو پھر جب جب یہ رطوبت نکلے گی اس وقت وضو ٹوٹے گا  اور کپڑے پر لگنے  کی صورت میں کپڑے ناپاک ہوں گے۔اب ان کپڑوں میں نماز پڑھنے کی تفصیل یہ ہے کہ اگر نا پاکی کی  مقدار ایک درہم(یعنی ہتھیلی کی مقدار)   سے زیادہ ہے تو اس کا پاک کرنا ضروری ہے اور دھوئے بغیر ان کپڑوں میں نماز ادا نہیں ہوگی۔ اگر ایک درہم (یعنی ہتھیلی کی مقدار)  یا اس سے کم ہے تو پاک کیے بغیر نماز تو ہوجائے گی البتہ نا پاکی کے ساتھ نماز پڑھنے کی وجہ  سے کراہت  پھر بھی ہوگی؛  اس لیے  اگر نا پاکی کم بھی ہو  تب بھی نماز سے قبل اس کو دھو کر نماز ادا  کرنا چاہیے؛  لہذا جب نجاست ایک درہم سے زیادہ ہو تو سائلہ نماز سے قبل اپنے کپڑوں کو دھو کر نجاست زائل کرلے ،کپڑے بدلنا ضروری نہیں ہے ۔ نیز  کپڑوں کے بار بار دھونے کی کلفت سے بچنے کے لیے یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ کوئی روئی یا ٹشو پیپر وغیرہ شرم گاہ میں رکھ لیا جائے؛ تاکہ کپڑے نا پاک نہ ہوں اور نماز سے قبل اس کو تبدیل کر کے وضو  کر کے نماز ادا کر لی جائے۔

الدر المختار میں ہے:

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة)

بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل.»(وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبهونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: ٧٨]- (ثم يصلي) به (فيه فرضا ونفلا) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه.

وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.

(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى."

(رد المحتار ،کتاب الطہارت باب الحیض نمبر ۱ ص نمبر ۳۰۵،ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"هذا الذي ذكرناه حكم صاحب العذر، وأما حكم نجاسة ثوبه فنقول إذا أصاب ثوبه من ذلك أكثر من قدر الدرهم يجب غسله إذا كان الغسل مفيدا بأن كان لا يصيبه مرة بعد أخرى حتى لو لم يغسل، وصلى لا يجوز، وإن لم يكن مفيدا لا يجب ما دام العذر قائما، وهو اختيار مشايخنا، وكان محمد بن مقاتل الرازي يقول يجب غسله في وقت كل صلاة قياسا على الوضوء، والصحيح قول مشايخنا لأن حكم الحدث عرفناه بالنص، ونجاسة الثوب ليس في معناه ألا ترى أن القليل منها عفو، فلا يلحق به."

(کتاب الطہارت فصل بیان ما ینقض الوضوء ج نمبر ۱ ص نمبر ۲۹،دار الکتب العلمیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌رطوبة الفرج طاهرة خلافًا لهما

(قوله: ‌رطوبة الفرج طاهرة) ولذا نقل في التتارخانية أن ‌رطوبة الولد عند الولادة طاهرة، وكذا السخلة إذا خرجت من أمها، وكذا البيضة فلا يتنجس بها الثوب ولا الماء إذا وقعت فيه، لكن يكره التوضؤ به للاختلاف، وكذا الإنفحة هو المختار. وعندهما يتنجس، وهو الاحتياط. اهـ."

(کتاب الطہارت ،باب الانجاس   ج نمبر ۱ ص نمبر ۳۴۹،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100775

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں