بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

عورت کے مال پر اس کے شوہر کا ناجائز طریقہ سے قابض ہونا / زندگی میں مکان کی اولاد کے درمیان تقسیم


سوال

میں ایک مجبور خاتون ہوں، میں نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد دوسری شادی کی،  میرے شوہر نے مجھے یہ کہا تھا کہ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے، اس کے بعد معلوم ہوا کہ اُس کے پانچ بچے بھی ہیں اور مجھے دباؤ ڈال کے وہ اپنے پانچ بچوں کو بھی میرے گھر لے آیا ہے، میرے شوہر نے مجھ سے بہت سا مال اور سونا بھی باتوں میں لا کر ہڑپ کر لیا اور واپس نہیں کیا۔

میں بیمار ہوں اور ڈر ہے کہ عنقریب اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں، میری دو سگی بیٹیاں ہیں جو شادی شدہ ہیں اور ایک سگا بیٹا ہے جو باہر ملک میں ہوتا ہے،مجھے ڈر ہے کہ میرا شوہر میرے گھر پر قابض ہو جائے گا اور میں یہ چاہتی ہوں کہ میرے شوہر کو اب میری جائیداد سے کچھ نہ ملے۔

کیا میرے لیے یہ چاہنا جائز ہے ؟ مجھے کوئی صورت بتائیں جس سے میں اپنی جائیداد اپنے شوہر کو ملنے سے بچا سکوں اور اپنا گھر اور اپنی دیگر بچی ہوئی جائیداد بھی صرف سگی اولاد کو دے سکوں۔ برائے کرم راہ نمائی فرمائیں۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائلہ کے شوہر نے دھوکہ سے سائلہ کے مال و متاع پر ناجائز قبضہ کرلیا ہے، تو ان کا یہ فعل ناجائز اور حرام ہے، سائلہ کے شوہر پر لازم ہے کہ جتنا مال بھی ناحق طریقہ سے  لیا ہے،  سائلہ کو واپس کرے، بصورتِ دیگر سخت وعیدوں کا مستحق بنے گا۔

صحیح بخاری میں ہے :

 "حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا عبد الله بن المبارك، حدثنا موسى بن عقبة، عن سالم، عن أبيه رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: من أخذ من الأرض شيئًا بغير حقه خسف به يوم القيامة إلى سبع أرضين."

(كتاب المظالم والغصب ، باب إثم من ظلم شيئا من الأرض، 130/3، ط: دار طوق النجاة)

ترجمہ: ”سالم بن عبداللہ بن عمر نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے کسی کی زمین میں سے کچھ ناحق لے لیا تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔“

اگر سائلہ کو اپنی مملوکہ دیگر جائے داد پر قبضہ ہوجانے کا ڈر ہے اور سائلہ کے انتقال کے بعد ان کی سگی اولاد کے محروم رہ جانے کا خدشہ ہے، تو اس کا حل یہ ہے کہ سائلہ اپنی زندگی میں ہی اپنی جائےداد اپنی اولادکے درمیان شرعی طریقہ کے مطابق تقسیم کردے، اور زندگی میں اولاد کے درمیان تقسیم کرنا ہبہ اور گفٹ كہلاتا ہے، نيز شرعاّ گفٹ كے مكمل اور تام ہونے كے لیے ضروری ہے کہ مالک اس چیز کو اپنی ملکیت سے نکال کر جس کو ہدیہ کیا جارہا ہے اس کی ملیکت میں منتقل کردے اور مکمل تصرف و اختیار کے ساتھ اس کے حوالہ کردے۔

مزید یہ کہ اولاد کے درمیان گفٹ کرنے میں برابری کرنا بہتر ہے،  ہاں اگر کسی معقول وجہ سے کسی کو زیادہ دینا چاہے تو دے سکتی  ہے۔

جہاں تک مکان اور  غیر منقولی اشیاء کی بات ہے، تو اس کی تقسیم کی صورت یہ ہے کہ مکان کے حصص کرکے  اولاد  کے درمیان کمروں کے اعتبار سے تقسیم کردے، ہر ایک کو اس کا حصہ  مکان میں مقرر کرکے اس کا مالک بناکر اس کے حوالہ کردے، نیز اس حصہ میں سائلہ کا جو سامان  وغیرہ ہے، وہ بطور امانت اس حصہ میں رکھنے کی اجازت طلب کرلے۔

تاہم سائلہ کے شوہر نے جو سونا وغیرہ غصب کیا ہوا ہے، اگر  سائلہ  اس مغصوبہ سامان کا شوہر کو مالک بنادے اور بقیہ جائے داد  صرف اپنی سگی اولاد میں تقسیم کردے، تو یہ بھی درست ہے، بلکہ یہ صورت زیادہ بہتر ہے کہ اس سے آپس میں ناچاقیاں بھی ختم ہوجائیں گی ۔

بدائع الصنائع ميں  ہے:

"(أما) الذي يرجع إلى حال قيامه فهو وجوب رد المغصوب على الغاصب، والكلام في هذا الحكم في ثلاثة مواضع: في بيان سبب وجوب الرد، وفي بيان شرط وجوبه، وفي بيان ما يصير المالك به مستردا أما السبب فهو ‌أخذ ‌مال ‌الغير بغير إذنه لقوله عليه الصلاة والسلام:" على اليد ما أخذت حتى ترد"، وقوله عليه الصلاة والسلام:" لا يأخذ أحدكم ‌مال صاحبه لاعبا ولا جادا، فإذا ‌أخذ أحدكم عصا صاحبه فليرد عليه."

(کتاب الغصب، فصل فی حکم الغصب، ج:7، ص: 148، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة."

(کتاب الوقف، ج:4، ص:444، ط: دار الفکر)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."

(کتاب الهبة،  الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ج:4، ص:378،  ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144607100345

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں