بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو الحجة 1446ھ 05 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

عورت کے لیے تین نکاحوں اور طلاقوں کے بعد چوتھی جگہ نکاح کرنے کا شرعی حکم


سوال

سوال نمبر ۱:
ایک خاتون کی تین جگہوں پر یکے بعد دیگرشادیاں ہو چکی ہیں، اور تیسری شادی بھی طلاق پر ختم ہوئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ چوتھی جگہ نکاح کر سکتی ہے یا نہیں؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی عورت تین یا چار شوہروں سے علیحدہ ہو جائے تو اس کے لیے مزید نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا۔ کیا یہ بات شرعاً درست ہے؟

سوال نمبر ۲:
اس خاتون کا ایک بچہ ہے جو ذہنی طور پر کمزور ہے اور وہ اکثر لوگوں کا سامان چوری کر لیتا ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ اس کے گھر آ کر اپنے سامان کا مطالبہ کرتے ہیں، اور وہ خاتون مجبوراً بار بار گھر سے نکلتی ہے تاکہ مسئلہ حل کرے۔ کیا اس طرح بار بار گھر سے باہر جانا جائز ہے؟ کیا اس کا اثر اس کی عدت پر پڑتا ہے؟ خاص طور پر جب کہ اس کے والدین اس کی مدد نہیں کر رہے؟

سوال نمبر ۳:
اگر اس خاتون نے چوتھی جگہ نکاح کر لیا، اور وہاں بھی رشتہ قائم نہ رہ سکا تو کیا وہ پہلے تین شوہروں میں سے کسی ایک سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے؟

 

جواب

1 :عدتِ طلاق یا عدتِ وفات مکمل ہونے کے بعد عورت کو شریعتِ مطہرہ نے نئے نکاح کرنے  کی مکمل اجازت دی ہے۔ شریعت میں ایسی کوئی حد مقرر نہیں کہ  تین نکاح ناکام ہو چکے ہوں تو وہ چوتھی بار نکاح نہ کر سکے۔ اس کے لیے نکاح کرنا شرعاً جائز اور درست ہے، بشرطیکہ عدت پوری ہو چکی ہو اور نکاح کے دیگر شرعی تقاضے پورے کیے جائیں۔

2 : عدت کے دوران عورت کا گھر میں رہنا واجب ہے، اور بلا ضرورتِ شرعی گھر سے نکلنا جائز نہیں ہوتا۔ تاہم، اگر کسی شرعی یا واقعی مجبوری کی وجہ سے نکلنا ضروری ہو  ،مثلاً بچے کی ذہنی حالت کی وجہ سے پیش آنے والی صورتحِال، یا لوگوں کی شکایات کا ازالہ کرنا تو ایسی مجبوری کے تحت وقتی طور پر گھر سے نکلنے کی اجازت ہے، بشرطیکہ وہ بلا وجہ اِدھر اُدھر نہ جائے اور جلد از جلد واپس آ جائے اور اس بچے کی سرپرست صرف وہی ہو اور بچہ بھی عقل نہ رکھتا ہو۔لیکن اگر بچہ سمجھ دار ہے بایں معنی کے چوری کو جانتا ہے یعنی اتنی عقل اور شعور رکھتا ہے تو پھر وہ  عادی مجرم ہے اور اس کی طرف داری کے لیے نکلناجائز نہیں۔

3 : اگر کسی عورت نے اپنے نکاح کے مقاصد کو پورا کرنے کی نیت سے کسی مرد سے شادی کی، اور بعد ازاں وہ شوہر وفات پا گیا یا اُسے طلاق دے دی، تو ایسی صورت میں وہ اپنے سابقہ تین شوہروں میں سے کسی سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔ 

شامی میں ہے :

’’ووجه الدفع أن معتدة الموت لما كانت في العادة محتاجة إلى الخروج لأجل أن تكتسب للنفقة قالوا: إنها تخرج في النهار وبعض الليل، بخلاف المطلقة. وأما الخروج للضرورة فلا فرق فيه بينهما كما نصوا عليه فيما يأتي، فالمراد به هنا غير الضرورة۔‘‘

(باب العدة، فصل فی الحداد ج : 3 ص 536، ط : سعید )

ایضاً : 

’’( وكره ) التزوج للثاني ( تحريماً )؛ لحديث: لعن المحلل والمحلل له، ( بشرط التحليل )، كتزوجتك على أن أحللك، ( وإن حلت للأول )؛ لصحة النكاح وبطلان الشرط، فلا يجبر على الطلاق‘‘۔

(کتاب الطلاق، باب الرجعة، ج : 3 ص : 414، ط : سعید) 

فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 144611101172

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں