بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے لیے کن لوگوں سے پردہ ضروری ہے ؟


سوال

اپنے دیور و بیٹے اور داماد سے پردہ کرنا جن سے اپنی تمام زندگی پردہ نہیں کیا ہے۔

جواب

آپ کا سوال واضح نہیں ۔تاہم  کسی بھی عورت کے لیے کن لوگوں سے پردہ کرنا ضروری ہے،اس کے متعلق تفصیل درج ذیل ہے:

  وہ افراد جن سے عورت کا پردہ نہیں  ہے، وہ یہ ہیں:
(1)  باپ  (2) بھائی  (3)  چچا   (4) ماموں   (5)  شوہر   (6) سسر   (7) بیٹا   (8)  پوتا   (9) نواسہ   (10) شوہر کا بیٹا   (11) داماد   (12) بھتیجا   (13) بھانجا   (14) مسلمان عورتیں   (15) کافر باندی (16)ایسے افراد  جن کو عورتوں کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ ( مثلاً:  چھوٹے بچے جن کو  ابھی یہ سمجھ نہیں کہ عورت کیا ہے، جسے مرد اور عورت میں فرق ہی نہ معلوم ہو)

اس کے علاوہ تمام اجنبیوں سے عورت کا پردہ ہے، ان میں رشتہ دار اور غیر رشتہ دار دونوں شامل ہیں، نامحرم رشتہ دار  یعنی وہ رشتہ دار جن سے پردہ فرض ہے، وہ درج ذیل ہیں :

    (1) خالہ زاد   (2) ماموں زاد   (3) چچا زاد   (4) پھوپھی زاد   (5) دیور    (6) جیٹھ   (7) بہنوئی   (8)نندوئی   (9) خالو    (10) پھوپھا   (11) شوہر کا چچا   (12)  شوہر کا ماموں   (13)شوہر کا خالو   (14) شوہر کا پھوپھا   (15) شوہر کا بھتیجا    (16) شوہر کا بھانجا۔

ارشاد باری تعالی ہے:

"﴿ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾."[ سورة النور،31]

دیور اور دیور کے بیٹے اگر بالغ ہیں تو پردہ کرنا ضروری ہے، اپنے داماد سے پردہ نہیں ہے، او شریعت کے حکم کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

 مزید اس سلسلہ میں ہمارے بعض اکابر  ( قاری طیب صاحب رحمہ اللہ ، مولانا عاشق الہی صاحب رحمہ اللہ  )نے مستقل  رسالے اور کتابچے تحریر  کیے ہیں جن کا مطالعہ مفید ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101371

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں