بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے ذبیحہ کا حکم، نماز میں ازار/ شلوار یا پینٹ ٹخنوں سے نیچے لٹکے ہونے کی صورت میں اعادہ کا حکم


سوال

(1) کیا عورت قربانی کے جانور کو اپنے ہاتھ سے ذبح کر سکتی ہے یا نہیں؟ حدیث و شرعی اعتبار کی روشنی میں جواب دیں!

(2) مرد اپنی شلوار یا پینٹ کے پائنچے ٹخنے سے نیچے رکھتے ہوئے نماز پڑھے تو اس کی نماز درست ادا ہوجائے گی یا نماز دہرانی پڑے گی؟ ایک مفتی صاحب کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسےشخص کو نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ حدیث کا حوالہ اور شرعی حیثیت سے تفصیلی کی روشنی میں جواب دیں!

جواب

۱) عورت کا قربانی کے جانور کو ذبح کرنا جائز ہے، البتہ عورت کو یہ اجازت پردہ کا مکمل اہتمام کرنے کی شرط کے ساتھ  ہی  دی جاسکتی ہے۔ اگر کسی جگہ عورت کی بے پردگی کا احتمال ہو تو عورت کو اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 296):

"(وشرط كون الذابح مسلمًا حلالًا خارج الحرم إن كان صيدًا)  فصيد الحرم لاتحله الذكاة في الحرم مطلقًا (أو كتابيًّا ذميًّا أو حربيًّا) إلا إذا سمع منه عند الذبح ذكر المسيح (فتحل ذبيحتهما، ولو) الذابح (مجنونًا أو امرأةً أو صبيًّا يعقل التسمية والذبح)." 

۲)شلوار کے پائنچے  ٹخنوں سے نیچے رکھنا  بقصدِ تکبر حرام ہے، اور بلاقصدِ تکبر مکروہِ تحریمی ہے، اگر غیر ارادی طور پر کبھی شلوار کا پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹک جائے تو  معاف ہے، لیکن جان بوجھ کر ایسا کرنا یا شلوار ہی ایسی بنانا کہ پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹکتا رہے، یہ جائز نہیں ہے، اور یہ متکبرین کی علامت ہے، اور جب یہ فعل ہی متکبرین کی علامت ہے  تو  پھر اگر کوئی یہ کہہ کر ٹخنوں کو چھپائے کہ نیت میں تکبر نہیں تھا، شرعاً درست نہیں ہے، اور ٹخنوں کو ڈھانکنا نماز اور غیر نماز ہر حال میں ممنوع ہے،  اور نماز  میں اس کی حرمت مزید شدید ہوجاتی ہے،  لہذا ایسا لباس ہی نہ بنایا جائے جس میں ٹخنے ڈھکتے ہوں، اور ایسا لباس ہونے کی صورت میں  نماز شروع کرنے سے پہلے  شلوار پینٹ وغیرہ کو اوپر یا نیچے کی طرف سے موڑ لینے سے کم ازکم اس گناہ سے نجات مل جائے گی جو شلوار وغیرہ کو نماز کے اندر ایسے ہی چھوڑ دینے سے جو گناہ ہوتا، بہرحال اگر کسی نے اس طرح نماز پڑھ لی ہو تو کراہت کے ساتھ  نماز ادا ہوجائے گی، دوہرانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

باقی سوال میں آپ نے جس حدیث کا تذکرہ کیا ہے وہ حدیث ابو داؤد شریف میں موجود ہے جس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص جو کہ ٹخنوں سے نیچے ازار کو لٹکائے ہوا تھا جب وہ نماز پڑھنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ جاؤ! جاکر وضو کرلو، چنانچہ وہ گیا اور وضو کر کے آیا تو آپ ﷺ نے دوبارہ اس سے فرمایا کہ جاؤ! جاکر وضو کرلو، چنانچہ وہ دوبارہ گیا اور وضو کر کے آگیا تو ایک دوسرے شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت فرمایا کہ آپ نے اس شخص کو باوضو ہونے کے باوجود وضو کرنے کا حکم کیوں دیا ؟ تو رسول اللہ ﷺ  نے  فرمایا کہ وہ شخص ٹخنوں سے نیچے ازار (کپڑا) لٹکا کر نماز پڑھ رہا تھا حال آں کہ اللہ تعالیٰ ٹخنوں سے نیچے ازار (کپڑا) لٹکانے والے کی نماز قبول نہیں فرماتے ہیں۔

اس حدیث کی تشریح میں شراح حدیث نے لکھا ہے کہ نماز  قبول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس حالت میں نماز پڑھنے سے اگرچہ نماز تو ادا ہوجائے گی اور دہرانے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی، البتہ اس نماز کو قبولیتِ کاملہ حاصل نہیں ہوگی اور اس نماز پر مکمل ثواب نہیں ملے گا۔اسی طرح شارحین حدیث نے اس  بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو ازار ٹخنوں سے نیچے ہونے کی وجہ سے وضو کے اعادہ کا حکم اس لیے دیا؛ کیوں کہ وضو بھی نماز کی شرائط  اور اَجزاءِ خارجیہ میں سے ہے، لہٰذا عدم قبولیت کا اثر  وضو میں بھی سرایت کرگیا، اس  لیے آپ ﷺ نے اس شخص کو اکمل و افضل نماز پڑھنے پر ابھارنے کے  لیے وضو کے اعادہ کا حکم دیا۔

بعض شراح نے یہ توجیہ ذکر کی ہے کہ آپ  ﷺ نے اس شخص کو وضو کے اعادہ کا حکم اس  لیے دیا؛ تاکہ جب وہ وضو کرنے جائے تو اسے اس بات پر غور کرنے کا موقع مل جائے کہ اس نے ایک مکروہ کام کیا ہے جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے اسے وضو کے اعادہ کا حکم دیا ہے اور تاکہ رسول اللہ ﷺ کے حکم پر وضو کا اعادہ کرنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کے ساتھ ساتھ اس کے باطن کو بھی تکبر کی گندگی سے پاک فرمادیں۔

وضو کے اعادہ کا حکم فرمانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ٹخنوں سے نیچے ازار (کپڑا) لٹکانا گناہ ہے اور وضو گناہوں کا کفارہ ہے۔

لہٰذا اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نماز کی حالت میں اگر ازار یا شلوار وغیرہ ٹخنوں سے نیچے ہوں گے تو وہ نماز ادا ہونے کے باوجود کامل طور پر قبول نہیں ہوگی اور اس پر ثواب نہیں ملے گا، لیکن اس حدیث کے ظاہر سے یہ استدلال کرنا درست نہیں ہے کہ جس شخص نےازار یا شلوار کے ٹخنوں سے نیچے لٹکنے کی حالت میں نماز پڑھ لی اس پر نماز کا دہرانا لازم ہے، کیوں کہ اس صورت میں تو پھر اسی حدیث کے ظاہر سے یہ استدلال بھی کرنا لازم آئے گا کہ ایسے شخص کا وضو بھی ٹوٹ جائے گا اور اسے دوبارہ وضو بھی کرنا پڑے گا، جب کہ اس بات کا قائل کوئی بھی نہیں ہے، چنانچہ یہ کہنا پڑے گا کہ یہ حدیث اپنے ظاہر پر نہیں ہے اور اس میں اعادہ کا ذکر بوجہ زجر و توبیخ کے ہے۔

سنن أبي داود (1/ 172):

"حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا أبان، حدثنا يحيى، عن أبي جعفر، عن عطاء بن يسار، عن أبي هريرة، قال: بينما رجل يصلي مسبلًا إزاره إذ قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اذهب فتوضأ»، فذهب فتوضأ، ثم جاء، ثم قال: «اذهب فتوضأ»، فذهب فتوضأ، ثم جاء، فقال له رجل: يا رسول الله ما لك أمرته أن يتوضأ، ثم سكت عنه، فقال: «إنه كان يصلي وهو مسبل إزاره وإن الله تعالى لايقبل صلاة رجل مسبل إزاره»."

بذل المجهود في حل سنن أبي داود (3/ 571):

"(عن عطاء بن يسار، عن أبي هريرة قال: بينما رجل يصلي مسبلًا إزاره) آي مرخيًا عن الحدّ الشرعي، وهو الكعبان (إذ قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: اذهب فتوضأ، فذهب فتوضأ ثم جاء) أي الرجل، (ثم قال) أي رسول الله صلى الله عليه وسلم للرجل: (اذهب فتوضأ فذهب) الرجل (فتوضأ ثم جاء) فكأنه جاء غير مسبل إزاره.

(فقال له) أي لرسول الله صلى الله عليه وسلم (رجل) لم يعرف اسمه: (يا رسول الله صلى الله عليه وسلم مالك أمرته أن يتوضأ؟) والحال أنه متوضئ طاهر، ما صدر منه ما ينقض وضوءه (قال) أي رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إنه كان يصلي وهو مسبل إزاره، وإنّ الله جلَّ ذكره لايقبل) أي قبولًا كاملًا (صلاة رجل مسبل إزاره) ظاهر جوابه عليه السلام أنه إنما أمره بإعادة الوضوء -والله أعلم- أنه لما كان يصلي وما تعلق القبول الكامل بصلاته، والطهارة من شرائط الصلاة وأجزائها الخارجية، فسرى عدم القبول إلى الطهارة أيضًا، فأمره بإعادة الطهارة حثًا على الأكمل والأفضل، فقوله: يصلي، أي يريد الصلاة، فالأمر بالوضوء قبل الصلاة، هكذا قال القاري، ونقل عن الطيبي: قيل: لعل السر في أمره بالتوضؤ، وهو طاهر، أن يتفكر الرجل في سبب ذلك الأمر، فيقف على ما ارتكبه من المكروه، وأن الله ببركة أمر رسوله عليه السلام إياه بطهارة الظاهر يطهر باطنه من دنس الكبر, لأن طهارة الظاهر مؤثرة في طهارة الباطن ، انتهى، وأخرج المصنف هذا الحديث بهذا السند في كتاب اللباس."

بذل المجهود في حل سنن أبي داود (12/ 114):

"(حدثنا موسى بن إسماعيل، نا أبان، نا يحيى، عن أبي جعفر، عن عطاء بن يسار، عن أبي هريرة قال: بينما رجل يصلي مسبلًا إزاره) إلى ما تحت الكعبين (فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: اذهب فتوضأ فذهب فتوضأ) وضوءه للصلاة (ثم جاء فقال: اذهب فتوضأ) ثانيًا (فقال له رجل) كان عنده: (يا رسول الله، مالك أمرته أن يتوضأ) وهو قد دخل في الصلاة متوضئًا.

(ثم سكتَّ) بتشديد التاء لأن تاء لام الكلمة وتاء الخطاب اجتمعتا فأدغمت إحداهما في الأخرى، أي: سكت عن الأمر بإعادة الصلاة (عنه؟ قال: إنه كان يصلي وهو مسبل إزاره) أي: إلى ما تحت الكعبين تكبرًا واختيالًا، يحتمل- والله أعلم- أنه أمره بإعادة الوضوء دون الصلاة, لأن الوضوء مكفر للذنوب، كما ورد في الأحاديث الكثيرة.

(و إن الله تعالى لايقبل صلاة رجل مسبل) إزاره من الكبر والخيلاء."

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 634)

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: «بينما رجل يصلي مسبل إزاره، قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم (اذهب فتوضأ) فذهب فتوضأ ثم جاء فقال رجل: يا رسول الله! ما لك أمرته أن يتوضأ؟ قال: إنه كان يصلي وهو مسبل إزاره (وإن الله لا يقبل صلاة رجل مسبل إزاره» )، رواه أبو داود.

(وعن أبي هريرة قال: بينما رجل يصلي مسبل إزاره) : صفة بعد صفة لرجل أي: مرسلة أسفل من الكعب تبخترا وخيلاء، قال ابن الأعرابي: المسبل الذي يطول ثوبه ويرسله إلى الأرض يفعل ذلك تبخترا واختيالا اهـ، وإطالة الذيل مكروهة عند أبي حنيفة والشافعي في الصلاة وغيرها، ومالك يجوزها في الصلاة دون المشي لظهور الخيلاء فيه، (قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم) ، أي: بعد صلاته لكون صلاته صحيحة، فأراد أن يبين له أنها غير مقبولة، فقال: (اذهب فتوضأ) : قيل: لعل السر في أمره بالتوضؤ، وهو طاهر أن يتفكر الرجل في سبب ذلك الأمر، فيقف على ما ارتكبه من المكروه، وأن الله ببركة أمر رسول الله عليه السلام إياه بطهارة الظاهر يطهر باطنه من دنس الكبر ; لأن طهارة الظاهر مؤثرة في طهارة الباطن ذكره الطيبي (فذهب وتوضأ ثم جاء) : فكأنه جاء غير مسبل إزاره (فقال رجل: يا رسول الله ما لك أمرته أن يتوضأ؟) ، أي: والحال أنه طاهر [قال: ( «إنه كان يصلي وهو مسبل إزاره» ) : وإن الله لا يقبل، أي: قبولا كاملا صلاة رجل مسبل إزاره، ظاهر جوابه عليه السلام أنه إنما أعاده بالوضوء، والذي أعلم، أنه لما كان يصلي وما تعلق القبول الكامل بصلاته، والطهارة من شرائط الصلاة وأجزائها الخارجة فسرى عدم القبول إلى الطهارة أيضا، فأمره بإعادة الطهارة حثا على الأكمل والأفضل، فقوله: يصلي، أي: يريد الصلاة فالأمر بالوضوء قبل الصلاة، وأما ما ذكره ابن حجر من أن ظاهر الحديث أنه المسبل بقطع صلاته، ثم الوضوء، فهو غير صحيح لقوله تعالى: {ولا تبطلوا أعمالكم} [محمد: 33] (رواه أبو داود) ، قال ميرك: وفي إسناده أبو جعفر، وهو رجل من أهل المدينة لا يعرف اسمه قاله المنذري وفي التقريب أبو جعفر المؤذن الأنصاري المدني، مقبول من الثالثة نقله ميرك وأخرج الطبراني: «أنه - عليه السلام - أبصر رجلا يصلي، وقد أسدل ثوبه فدنا منه عليه السلام فعطف عليه ثوبه».

"عن أبي هریرة، قال: قال رسول الﷲ صلی الله  علیه وسلم: ما أسفل من الکعبین  من الإزار في النار."

(صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب ما أسفل من الکعبین ففي النار۲/۸۶۱، رقم:۵۵۵۹)  

"عن أبي ذر، عن النبي صلی الله  علیه وسلم قال: ثلاثة لایکلمهم الله  یوم القیامة، المنان الذيلایعطي شیئاً إلامنّه، والمنفق سلعته بالحلف والفاجر، والمسبل إزاره."

(صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم  إسبال الإزار، النسخة الهندیة ۱/۷۱، بیت الأفکار رقم:۱۰۶)

"وینبغي أن یکون الإزار فوق الکعبین". الخ

(الهندیة، کتاب الکراهة، الباب التاسع في اللبس، زکریا۵/۳۳۳)

بذل المجهود في حل سنن أبي داود (12/ 113):

’’ قال العلماء: المستحب في الإزار والثوب إلى نصف الساقين، والجائز بلا كراهة ما تحته إلى الكعبين، فما نزل عن الكعبين فهو ممنوع، فإن كان للخيلاء فهو ممنوع منع تحريم وإلَّا فمنع تنزيه. ‘‘

 مرقاة المفا تیح میں ہے:

’’ و لایجوز الإسبال تحت الکعبین إن کان للخیلاء، وقد نص الشافعی علی أن التحریم مخصوص بالخیلاء؛ لدلالة ظواهر الأحادیث علیها، فإن کان للخیلاء فهو ممنوع منع تحریم، وإلا فمنع تنزیه".

(۸/۱۹۸، کتاب اللباس)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112200834

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں