بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے سر کے بال بیچنے کا حکم


سوال

کیا عورت کے سر کے بال بیچنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ انسان زندہ ہو یا مردہ، مسلمان ہو یا کافر، مرد ہو یا عورت، شریعتِ  مطہرہ نے انسان کو مکرم و محترم بنایا ہے، اس  لیے شریعتِ مطہرہ نے جہاد کے دوران بھی کفار  کی لاشوں کا مثلہ  کرنے (اعضاء وغیرہ کاٹنے) کو ممنوع قرار دیا ہے،  چنانچہ  انسان کے مرنے کے بعد بھی اس کی حرمت باقی ہونے کی وجہ سے انسانی جسم اور اعضا ء  کا احترام لازم ہے، لہٰذا زندگی میں بھی اور  مرنے کے بعد بھی انسانی اعضاء اور انسانی  بال کاٹ کر الگ کرنا اور ان کی خرید و فروخت کرنا چاہے کسی بھی غرض سے ہو ، ناجائز اور حرام ہے اور   انسانی بالوں کی خرید و فروخت سے جو کمائی حاصل ہوگی وہ بھی ناجائز اور حرام ہوگی ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 58):

’’ (كما بطل) (بيع صبي لا يعقل ومجنون) شيئا وبول (ورجيع آدمي لم يغلب عليه التراب) فلو مغلوبا به جاز كسرقين وبعر، واكتفى في البحر بمجرد خلطه بتراب (وشعر الإنسان) لكرامة الآدمي ولو كافرا ذكره المصنف وغيره في بحث شعر الخنزير.

(قوله: وشعر الإنسان) ولا يجوز الانتفاع به لحديث «لعن الله الواصلة والمستوصلة» وإنما يرخص فيما يتخذ من الوبر فيزيد في قرون النساء وذوائبهن هداية.

[فرع] لو أخذ شعر النبي صلى الله عليه وسلم ممن عنده وأعطاه هديةً عظيمةً لا على وجه البيع فلا بأس به، سائحاني عن الفتاوى الهندية.

مطلب: الآدمي مكرم شرعًا ولو كافرًا

(قوله: ذكره المصنف) حيث قال: والآدمي مكرم شرعًا وإن كان كافرًا فإيراد العقد عليه وابتذاله به وإلحاقه بالجمادات إذلال له. اهـ أي وهو غير جائز وبعضه في حكمه وصرح في فتح القدير ببطلانه ط. قلت: وفيه أنه يجوز استرقاق الحربي وبيعه وشراؤه وإن أسلم بعد الاسترقاق، إلا أن يجاب بأن المراد تكريم صورته وخلقته، ولذا لم يجز كسر عظام ميت كافر وليس ذلك محل الاسترقاق والبيع والشراء، بل محله النفس الحيوانية فلذا لا يملك بيع لبن أمته في ظاهر الرواية كما سيأتي فليتأمل‘‘.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200577

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں