بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے استعمال کے زیورات پر زکات کا حکم


سوال

عورت کے زیبایش کے زیورات جو استعمال کر رہی ہو اس پر زکات ہے یا نہیں؟

جواب

سونا چاندی خواہ زیورات کی شکل میں ہوں یا کسی دوسری شکل (بسکٹ، برتن وغیرہ) میں ہو، فقہائے احناف کے ہاں بقدرِ نصاب ہونے کی صورت میں ان پر زکات واجب ہے، کیوں کہ سونے اور چاندی میں زکات واجب ہونے  کے بارے میں قرآن و حدیث میں جو نصوص وارد ہوئی ہیں وہ عام ہیں، ان میں زیور ہونے یا نہ ہونے  اور استعمال میں ہونے یا نہ ہونے کی کوئی قید نہیں ہے، نیز  بعض احادیث میں صراحت کے ساتھ استعمال شدہ زیورات کی زکات کی عدم ادائیگی پر سخت وعید ذکر ہے، اس  لیے فقہاءِ  احناف کے نزدیک سونا چاندی سے بنی ہوئی  ہر  چیز پر زکات لازم ہے، چاہے وہ استعمال میں ہو یا نہ ہو۔

1-  عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث ہے کہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور ان کی بیٹی کے ہاتھ  میں سونے کے دو موٹے کنگن تھے، اسے دیکھ  کر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس کی زکات دیتی ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں، آپ نے فرمایا: "کیا تم کو یہ اچھا لگے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تمہیں آگ کے دو کنگن پہنائے؟ چنانچہ اس نے وہیں دونوں کنگن نکال دیے اور کہا: یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔"

(احمد؛ ۲؍۱۷۸،۲۰۴، ابوداود؛ ۱۵۶۳، نسائی؛ ۲۴۷۹،بیہقی؛۴؍۱۴۰)

2- حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ  میرے پاس تشریف لائے اور میرے ہاتھ میں چھلا دیکھ  کر مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میں نے آپ کے لیے زینت حاصل کرنے کی غرض سے بنوایا ہے۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس کی زکات ادا کرتی ہو؟ میں نے کہا: نہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تو پھر  یہ تمہیں جہنم میں لے جانے کے لیے کافی ہے۔"

(ابوداؤد ۱/۲۴۴، دار قطنی)

3- نیز  قرآن عظیم کی آیتِ شریفہ ہے جس کا ترجمہ ہے: ’’جو لوگ سونا یا چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (یعنی زکات نہیں نکالتے) سو آپ ان کو ایک بڑے دردناک عذاب کی خبر سنادیجیے، جو اس روز واقع ہوگا کہ ان (سونے وچاندی) کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر ان سے لوگوں کی پیشانیوں اور ان کی کروٹوں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا، اور یہ جتایا جائے گا کہ یہ وہ ہے جس کو تم اپنے واسطے جمع کرکے رکھتے تھے، سو اب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو‘‘۔ (سورۂ التوبہ ۳۴،۳۵)

اس آیت کی تشریح سے متعلق  ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ وہ سونے کے زیورات پہنتی تھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ "کیا یہ کنز ہے؟" آپ ﷺ نے فرمایا:

"جو مالِ زکوٰۃ  کے نصاب کو پہنچ جائے اور پھر اس کی زکات دے دی جائے تو وہ کنز نہیں۔" 

آپ  ﷺ  نے ان سے  یہ نہیں  فرمایا کہ زیورات میں زکات نہیں ہے۔  (ابوداود کتاب الزکاۃ۔ باب الکنز ما ہو وزکوۃ الحلی)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 295)

’’باب زكاة المال أل فيه للمعهود في حديث «هاتوا ربع عشر أموالكم» فإن المراد به غير السائمة لأن زكاتها غير مقدرة به. (نصاب الذهب عشرون مثقالا والفضة مائتا درهم) ۔۔۔۔۔۔ (واللازم) مبتدأ (في مضروب كل) منهما (ومعموله ولو تبرا أو حليا مطلقا) مباح الاستعمال أو لا ولو للتجمل والنفقة؛ لأنهما خلقا أثمانا فيزكيهما كيف كانا (أو) في (عرض تجارة قيمته نصاب) الجملة صفة عرض وهو هنا ما ليس بنقد. ۔۔۔۔۔۔۔۔ (ربع عشر) خبر قوله اللازم‘‘.

الجوهرة النيرة - (1 / 475):

"(قوله: وفي تبر الذهب والفضة وحليهما والآنية منهما الزكاة) التبر القطعة التي أخرجت من المعدن وهو غير المضروب وقوله وحليهما قال الشافعي: كل حلي معد للباس المباح لاتجب فيه الزكاة لنا ما روي عن النبي عليه الصلاة والسلام {رأى امرأتين تطوفان وعليهما سواران من ذهب، فقال: أتؤديان زكاتهما؟ قالتا: لا، قال: أتحبان أن يسوركما الله بسوارين من نار جهنم؟ فقالتا: لا قال: فأديا زكاتهما}، وأما اليواقيت واللآلئ والجواهر فلا زكاة فيها وإن كانت حليًا إلا أن تكون للتجارة".

الاختيار لتعليل المختار - (1 / 118):

"(وتجب في مضروبهما وتبرهما وحليهما وآنيتهما نوى التجارة أو لم ينو إذا كان ذلك نصابًا) قال الله تعالى: {والذين يكنزون الذهب والفضة ولاينفقونها}  [ التوبة : 34 ] الآية. علق الوجوب باسم الذهب والفضة وأنه موجود في جميع ما ذكرنا".

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - (1 / 306):

"ويجب في تبرهما بالكسر وهو ما يكون غير مضروب من الفضة والذهب وقد يطلق على غيرهما من المعدنيات كالنحاس والحديد إلا أنه بالذهب أكثر اختصاصًا، و قيل: فيه حقيقة وفي غيره مجاز وحليهما سواء كان للنساء أو لا أو قدر الحاجة أو فوقها أو يمسكها للتجارة أو للنفقة أو للتجمل أو لم ينو شيئًا".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144209201295

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں