کیاقاضی لڑکی نکاح پڑھاسکتی ہے؟
واضح رہے نکاح کے انعقاد کے لیے بنیادی چیز شرعی گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرنا ہے۔ اگر زوجین خود گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کر لیں تو بھی نکاح ہو جائے گا، نکاح خواں کی حیثیت محض ترجمان اورمعبر کی ہوتی ہے؛لہذا اگر عورت گواہوں کی موجودگی میں کسی کا نکاح پڑھائے تو وہ نکاح شرعاًمنعقد ہوجاتا ہے ، باقی گواہان اور شوہر ،نکاح خواں عورت کے نامحرم ہوں تو عورت کا ان سے شرعی پردہ چونکہ لازم ہے۔ نیز شرعی پردہ ہونے کے باوجود عورت کی آواز ان مردوں کو سنائے بغیر نکاح کا عمل مکمل نہیں ہوسکتا، لہذا بغیر شرعی مجبوری کے عورت کو نکاح خواں نہیں بنانا چاہئے۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(قوله: لأنه يجعل عاقدا حكما) لأن الوكيل في النكاح سفير، ومعبر ينقل عبارة الموكل، فإذا كان الموكل حاضرا كان مباشرا؛ لأن العبارة تنتقل إليه وهو في المجلس".
(کتاب النکاح ،ج: ۳،ص:۲۴،سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308100498
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن