کیا عورت مرد سے پہلے ایجاب کر سکتی ہے؟ کہ میں نے اتنے حق مہر کے عوض تم سے اپنا نکاح کیا، کیا تمہیں قبول ہے؟
عورت کے لیےبھی جائزہے کہ وہ مرد سے دو گواہو ں کی موجودگی میں ایجاب کرے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک صحابیہ نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنے کی پیشکش کی تھی ۔
حدیث شریف میں ہے:
"عن سهل بن سعد الساعدى أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- جاءته امرأة فقالت يا رسول الله إنى قد وهبت نفسى لك." (الحديث)
(سنن أبي داود مع تعليقات الشيخ عزت عبيد الدعاس، باب في التزويج علي العمل بعمل، حديث 2111، ج:2 ص405، ط: دار بن حزم)
بدائع الصنائع میں ہے:
"صفة الإيجاب والقبول فهي: أن لا يكون أحدهما لازما قبل وجود الآخر، حتّى لو وجد الإيجاب من أحد المتعاقدين كان له أن يرجع قبل قبول الآخر، كما في البيع؛ لأنّهُما جميعا ركن واحد."
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،دار الكتب العلمية،الطبعةالثانية، 1406هـ - 1986م. ج:2 ص:232)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(وأما ركنه) فالإيجاب والقبول، كذا في الكافي والإيجاب ما يتلفظ به أولا من أي جانب كان والقبول جوابه هكذا في العناية."
(فتاوى هنديه، دار الفكر،الطبعة الثانية 1310 ه، ج1 ص267.)
فتاوی قاضیخان میں ہے:
"ينعقد بلفظ النكاح والتزويج كان على وجه الخبر عن الماضي نحو أن تقول المرأة زوجت نفسي منك بكذا بمحضر من الشهود فيقول الرجل قبلت."
(فتاوی قاضیخان، کتاب النکاح، ج1 ص151 ط: بلوچستان بک ڈپو کوئٹہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508100873
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن