بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا نس بندی کرانا


سوال

 میرے چار بچے ہیں اور ہمارے گھر ہم میاں بیوی کے علاوہ کوئی تیسرا بندہ مطلب دادا دادی یا کوئی بڑا بزرگ جو بچوں کا ذرا خیال، دھیان رکھ لیا کرے؛ تاکہ مجھے اور خاتون کو کام کاج میں ذرا آسانی ہو جایا کرے، نہیں ہے ۔ اور خاتون کی طبیعت بھی اکثر اوقات ٹھیک نہیں رہتی۔  مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کیا صورتِ  مسئولہ میں آپریشن کے ذریعہ بچوں کی پیدائش کا سلسلہ روکا جا سکتا ہے؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  ذکر کیے گئے اعذار کی وجہ سے  عارضی وقفہ کرنے کی گنجائش ہے، تاہم آپریشن کرکے  نس بندی کروانا یا کوئی ایسا طریقہ اپنانا جس سے توالد وتناسل   (بچہ پیدا کرنے)  کی صلاحیت بالکل ختم ہوجائے، شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔

صحيح البخاري (7 / 4):

"حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: أخبرني سعيد بن المسيب، أنه سمع سعد بن أبي وقاص، يقول: لقد رد ذلك، يعني النبي صلى الله عليه وسلم على عثمان بن مظعون، ولو أجاز له التبتل لاختصينا."

ترجمہ : حضرت سعد بن وقاصؓ فرماتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون کو منع فرمادیا تھا اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں خصی ہونے کی اجازت مرحمت فرماتے تو ہم خصی ہوجاتے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5 / 2042):

"(وعن سعد بن أبي وقاص رضي الله تعالى عنه، قال: «رد رسول الله صلى الله عليه وسلم على عثمان بن مظعون التبتل» ) أي: الانقطاع عن النساء، وكان ذلك من شريعة النصارى، فنهى النبي صلى الله عليه وسلم عنه أمته؛ ليكثر النسل ويدوم الجهاد. قال الراوي: (ولو أذن له) أي: لعثمان في ذلك (لاختصينا) أي: لجعل كل منا نفسه خصيا كيلايحتاج إلى النساء. قال الطيبي: " كان من حق الظاهر أن يقال: لو أذن لتبتلنا، فعدل إلى قوله: اختصينا إرادة للمبالغة أي: لو أذن لبالغنا في التبتل حتى بالاختصاء، ولم يرد به حقيقة لأنه غير جائز. قال النووي - رحمه الله -: " كان ذلك ظنا منهم جواز الاختصاء، ولم يكن هذا الظن موافقًا فإن الاختصاء في الآدمي حرام صغيرًا أو كبيرًا، وكذا يحرم خصاء كل حيوان لايؤكل، وأما المأكول فيجوز في صغره ويحرم في كبره (متفق عليه)."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201801

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں