بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا مسجد کو سنبھالنا اور تولیت کے تحفظ کے لیے عدالتی کاروائی کرنا


سوال

1. کیا عورت مسجد کی متولیہ بن سکتی ہے؟

2. کچھ حضرات یہ عذر کریں کہ عورت مسجد کو نہیں چلا سکتی اور مسجد پر قابض ہونا چاہیں ،تو کیا وہ عورت مسجد کو چلانے کے حقوق حاصل کرنے کے لیے عدالتی کاروائی کر سکتی ہے؟

جواب

1. عورت اگر امانت دار ہو ، مسجد کے معاملات سے واقف ہو اور اپنے نائب کے ذریعہ مسجد کا انتظام و انصرام کر سکتی ہو ، تو عورت متولیّہ بن سکتی ہے ، لیکن بہتر یہ ہے کہ تولیت کسی مرد کے حوالے کی جائے جو مسجد میں موقع پر حاضر ہو ، یا کم از کم عورت معاملات کے حل لیے کسی مرد کو اپنا نمائندہ بنائے ؛ اس لیے کہ ہر معاملہ میں عورت کا مسجد جانا اور مسئلہ حل کرنا ممکن نہیں ، اس سے مسجد کے امور میں خلل آسکتا ہے۔

2. جب عورت کسی مسجد کی متولیہ ہو  اور اس سے بلاجوازِ شرعی تولیتِ مسجد سلب کی جارہی ہو ، تو اس صورت میں عورت اپنے حقِ تولیت کے بارے میں عدالت سے رجوع کرسکتی ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وينزع) وجوبا بزازية (لو) الواقف درر فغيره بالأولى (غير مأمون) أو عاجزا أو ظهر به فسق كشرب خمر ونحوه."

"(قوله: غير مأمون إلخ) ‌قال ‌في ‌الإسعاف: ولا يولى إلا أمين قادر بنفسه أو بنائبه لأن الولاية مقيدة بشرط النظر وليس من النظر تولية الخائن لأنه يخل بالمقصود، وكذا تولية العاجز لأن المقصود لا يحصل به ويستوي ‌فيه ‌الذكر ‌والأنثى وكذا الأعمى والبصير."

(‌‌كتاب الوقف، مطلب في الوقف إذا خرب ولم يمكن عمارته، ج:4، ص:380، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100984

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں