بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا مرد سے علاج کروانا


سوال

 کیا کوئی خاتون اپنے زنانہ مسئلہ (رحم میں رسولی) کے لیے کسی مرد ڈاکٹر سے چیک اپ کروا سکتی ہے؟ یہ اس صورت میں ہے کہ خاتون ڈاکٹر مسئلہ کو سمجھ نہیں پا رہی ہو، محرم اور دیگر خواتین سٹاف کی موجودگی میں مرد ڈاکٹر سےالٹراساؤنڈ کروانے کی اجازت ہے کہ نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں خواتین اپنے باطنی مسائل مثلا رحم میں رسولی وغیرہ کا علاج خاتون معالج سے  کرائیں، مرد معالج کے سامنے اپنا ستر کھولنا جائز نہیں، کیوں کہ اس میدان میں بہترین  خاتون معالج دستیاب ہیں، لیکن اگر کوئی ایسا نادر واقعہ ہو کہ خواتین کے علاج و معالجہ ،الٹراساونڈ کے لیے کوئی خاتون ڈاکٹر کہیں بھی میسر نہ ہو، یا میسر تو ہو، لیکن وہ اس علاج کی ماہر نہ ہو، تو ایسی مجبوی کی صورت میں مرد ڈاکٹر سے علاج اور الٹراساونڈ  وغیرہ کروانے کی گنجائش ہے، تاہم اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ طبیب کے سامنے صرف انہی اعضاء کو کھولا جائے، جن کا کھلا رکھنا علاج کے لیے ناگزیر ہو، نیز مرد طبیب کو بھی چاہیے کہ وہ علاج کی غرض سے بقدر ضرورت ہی نامحرم عورت کے جسم کو دیکھے اور چھوئے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ويجوز النظر إلى الفرج للخاتن وللقابلة وللطبيب عند المعالجة ويغض بصره ما استطاع، كذا في السراجية. ويجوز للرجل النظر إلى فرج الرجل للحقنة كذا ذكر شمس الأئمة السرخسي، كذا في الظهيرية ۔۔۔۔۔ امرأة أصابتها قرحة في موضع لايحل للرجل أن ينظر إليه لايحل أن ينظر إليها لكن تعلم امرأة تداويها، فإن لم يجدوا امرأة تداويها، ولا امرأة تتعلم ذلك إذا علمت وخيف عليها البلاء أو الوجع أو الهلاك، فإنه يستر منها كل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع، ولا فرق في هذا بين ذوات المحارم وغيرهن؛ لأن النظر إلى العورة لا يحل بسبب المحرمية، كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الکراہیۃ،الباب الثامن فیما یحل للرجل النظر الیہ  ومالا یحل لہ،ج:۵،ص:۳۲۷،دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"(ينظر) الطبيب (إلى موضع مرضها بقدر الضرورة) إذ الضرورات تتقدر بقدرها.

وفي الرد:وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح اهـ فتأمل."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی النظر والمس،ج:۶،ص:۶۷۰،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102065

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں