بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا انٹرنیٹ پر قرآن پڑھانا


سوال

بیوی چاہتی ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر قرآن سکھائے، لیکن اس کا شوہر اسے کہتا ہے کہ اگر قرآن سکھانا ہی ہے تو مدرسے میں جاکر خود بھی پڑھو اور وہاں بھی تعلیم دو، شوہر انٹرنیٹ کے فتنے سے ڈرتا ہے، تب ہی اس کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ انٹرنیٹ پر قرآن سکھائے، آپ اس معاملے میں مدد فرمائیں کہ کیا کرنا چاہیے؟

جواب

اگر انٹرنیٹ کے موجودہ فتنہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو (جس کے لیے ذیل میں شرائط بیان کی جارہی ہیں) تو   فی نفسہ نیٹ پر دینی یا دنیاوی تعلیم دینا جائز ہے۔  اس حوالے سے چند شرائط  کی رعایت ضروری ہے:

1-  شوہر کی اجازت سے تعلیم دے، اگر شوہر کی اجازت نہ ہو تو تعلیم کی اجازت نہ ہوگی۔

2- صرف مستورات اور لڑکیوں  کو تعلیم دے، غیر محرم مردوں یا قریب البلوغ لڑکوں کو تعلیم نہ دے۔

3-  قرآنِ کریم کی تعلیم یا کسی بھی قسم کی تعلیم محض صوتی ہو ، یعنی صرف آواز کے ذریعہ ہو، کیمرہ کے ذریعہ نہ ہو، ایک دوسرے کی تصویر یا کسی بھی جان دار کی تصویر نظر نہ آئے۔

4-  جسے تعلیم دی جارہی ہو وہاں معلمہ کی آواز دوسروں تک نہ پہنچے، بلکہ صرف طالبہ تک آواز محدود ہو۔ اگرچہ فی نفسہ عورت کی آواز ستر نہیں ہےلیکن سدًّا للفتنہ حتی الامکان عورت کی آواز غیر محرم مردوں تک نہ پہنچنے دی جائے۔

5- تعلیم کے سلسلے میں غیر محرم مردوں یا قریب البلوغ لڑکوں سے رابطہ اور بات چیت نہ کی جائے۔

بہرحال شوہر کا تردد اور اندیشہ اپنی جگہ درست ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ بیوی شوہر کی بات مان لے، خصوصاً جب کہ مذکورہ شرائط کی مکمل پاس داری خاصی دشوار ہے، تاہم اگر تدریس ضروری ہو تو مذکورہ بالا شرائط کی پابندی اور شوہر کے اعتماد کے ساتھ تعلیم کی گنجائش ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200921

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں