بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا دو پہیہ یا چار پہیہ سواری چلانا


سوال

کیاعورت شرعی لباس میں رہ کرگاڑی چلاسکتی ہے ؟دو پہیہ یاچارپہیہ گاڑی،اگر جواب ہاں ہے تو کس اصل سے متعلق سمجھاجائے گا؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ  نے عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیاهے، اور زمانۂ جاہلیت کے دستور کے موافق  بے پردگی کے ساتھ اور بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے اور گھومنے پھرنے سے منع کیا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت چھپانے کی چیز ہے،  جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تانک جھانک میں لگ جاتا ہے‘‘،  حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے معاملہ میں بھی یہ پسند فرمایا کہ عورتیں اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھیں اور اسی کی ترغیب دی ، حضرت امّ حمید رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شوق ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:تمہارا شوق (اور دینی جذبہ) بہت اچھا ہے، مگر تمہاری نماز اندرونی کوٹھی میں کمرے کی نماز سے بہتر ہے، اور کمرے  کی نماز گھر کے احاطے  کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کے احاطے  کی نماز محلے  کی مسجد سے بہتر ہے، اور محلے  کی مسجد کی نماز میری مسجد (مسجدِ نبوی) کی نماز سے بہتر ہے،چناں چہ حضرت امّ حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے فرمائش کرکے اپنے کمرے (کوٹھے) کے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا رہتا تھا مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنوائی، وہیں نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا اور اپنے خدا کے حضور حاضر ہوئیں۔(الترغیب و الترہیب:۱ /۱۷۸)

 شرعی وطبعی ضرورتوں کے لیے (جب کہ ضرورت ایسی ہو کہ بغیر باہر نکلے بغیرمصیبت ٹلنے یا کام پورا ہونے کی کوئی سبیل نہ ہو) عورت کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہے، لیکن وہ بھی اس شرط کے ساتھ مقید ہے کہ عورت مکمل پردہ وبرقع یا بڑی چادر  میں ہو، اور وہ بھی ایسا ہو جو پورے بدن کو چھپاتا ہو، دیدہ زیب ونقش ونگار والا، زرق برق، نظروں کو خِیرہ کردینے والا نہ ہو۔

موجودہ  پر فتن دور جس میں  فتنہ ، فساد ، اور بے حیائی عام ہے، اور مرد وزن میں دین بے زاری  کا عنصر غالب ہے، عورتوں میں فیشن ، اور بن سنور  کر باہر نکلنے کا رواج ہے ؛ اس لیے عام حالات  میں بلا ضرورت عورت کا گھر سے نکلنا منع ہے جب کہ   موٹرسائیکل یا گاڑی چلانا بطریقِ  اولیٰ  درست نہیں ہے، خاص طور پر موجودہ ماحول میں عورت کے لیے گھر سے  باہر نکلنے اور موٹرسائیکل یا  گاڑی چلانے میں بہت سے  مفاسد وخرابیاں  اور احکامِ شرعیہ کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔جب کہ  ایک  طویل روایت میں علاماتِ قیامت میں  سے   یہ ذکر کیا گیا ہے کہ  عورتیں گاڑیاں  (سواریاں) چلانے لگیں گی۔

نیز جس طرح مردوں کو حکم ہے کہ وہ عورتوں اور غیر محرم پر نظر نہ ڈالیں، اسی طرح عورتوں کو بھی حکم ہے کہ وہ غیر محرم مردوں پر نظر نہ ڈالیں، جب کہ گاڑی چلاتے وقت ہر طرح کے (یعنی جوان اور بڑی عمر کے) مردوں پر نظر پڑنا لازمی امر ہے، اس سے بچنا ممکن نہیں ہے اور یہ فتنہ کا باعث ہو سکتا ہے۔

 نیز جب کوئی عورت اور نوجوان لڑکی  گاڑی چلاتی ہے، تو مردوں کی نگاہیں اس کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہیں،   اور یہ بھی فتنہ کا باعث ہے، اور اگر وہ موٹرسائیکل  چلاتی ہو تو پھر مردوں کی توجہ کا مرکز بن کر رہ جاتی ہے،  جب کہ شریعت مطہرہ نے عورتوں کو نامحرموں کے سامنے  ایسے کاموں سے اجتناب  کا حکم دیا ہے کہ  جس سے  نامحرم مردوں کی توجّہ ان کی طرف مبذول ہو ؛تاکہ عورت کی عزت ، آبرو اور عصمت محفوظ رہے، اور    معاشرہ بے حیائی کے ناسور سے پاک رہے، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  عورتوں کے گھر سے باہر  ضرورت کے وقت  نکلتے ہوئے    تیز خوشبو لگاکر نکلنے سے بھی منع فرمایا اور اس پر بہت سخت انداز میں تنبیہ فرمائی ہے ، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر آنکھ زنا کار ہے اور عورت جب خوش بو   لگا کر مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ بھی ایسی ایسی ہے، یعنی وہ بھی زانیہ ہے“۔  ملاّ علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں  اس کا سبب ذکر کرتے  ہوئے  تحریر فرماتے ہیں کہ : کیوں کہ  اس عورت نے اس خوشبو   کے ذریعہ  مردوں کی شہوت کو برانگیختہ کیا، اور ان كو اپنی طرف دیکھنے پر اُبھارا، جس کی وجہ سے انہوں نے نامحرم عورت کو دیکھ کر آنکھوں کا زنا کیا، اور  اس عورت کو  اس کا سبب بننے کی وجہ سے گناہ ہوا، چوں کہ یہ عمل  آنکھوں کا زنا کا سبب بنا تھا، اس لیے زجراً اس کو یوں ذکر فرمایا کہ  گویا یہ عورت ہی  بدکاری کرنے والی ہے، جیساکہ  حوالہ آخر میں مذکور ہے۔

مذکورہ تمہید کے بعد جواب ملاحظہ کریں :

خواتین کا پردہ کی مکمل رعایت رکھتے ہوئے اپنے محرم یا شوہر  کے ساتھ ضرورت کے موقع پر موٹرسائیکل پر بیٹھنا جائز ہے،بیٹھنے کی جو ہئیت زیادہ پردہ والی اور محفوظ ہو اس کو اختیار کرنا  چاہیے؛  اس لیے اگر ایک طرف دونوں پاؤں کرکے سمٹ کر بیٹھ سکتی ہو تو زیادہ مناسب ہے، اگر ایک طرف پاؤں کرکے بیٹھنا مشکل ہو تو دونوں طرف پیر رکھ کر بیٹھنا بھی جائز ہے۔

باقی   خواتین کے گھوڑے پر بیٹھنے سے متعلق ایک  حدیث مشہور ہے، جس میں اس عمل کولعنت کا موجب قرار دیا گیا ہے، محدثین کے نزدیک وہ حدیث سند کے اعتبار سے ثابت نہیں ہے، البتہ  اس کا معنی اور مفہوم ثابت ہے؛ اس لیے کہ حدیث مبارک میں ہے کہ:  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے   مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے، اور  ایک روایت میں ہے کہ : رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس سے ایک عورت کمان  لٹکائے  گزری تو اس موقع پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  ارشاد فرمایا کہ : ”مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر   اور عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر اللہ کی لعنت ہے“۔ اس لیے کہ یہ دونوں  اصلاً مردوں ہی کے کام  ہیں، اسی طرح گھڑسواری یا گاڑی چلانا بھی اصلاً مردوں کے کام ہیں۔ اور اس ممانعت کا تعلق خود گھڑسواری  کرنے یا خود موٹر سائیکل  یا گاڑی وغیرہ چلانے سے ہے، موٹر سائیکل یا گاڑی میں   محرم یا شوہر کے  ردیف بننے  ( پیچھے بیٹھ کر   سوار ہونے  ) میں یہ ممانعت نہیں ہے، نیز اس ممانعت کی علت بھی    دائیں بائیں پیر  کرکے بیٹھنا نہیں ہے، اس کی مزید تفصیل اگلے سوال کے جواب میں مذکور ہے۔

 نیز خواتین کے  موٹر سائیکل چلانے میں شرعاً بہت سے  مفاسد ہیں ، جن میں چند درج ذیل ہیں:

  • الف: اس میں مردوں کی مشابہت ہے، اس لیے کہ سواری اصلاً  مردوں کا کام ہے، اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔
  • ب:  اس میں فتنہ کا قوی اندیشہ ہے۔
  • ج:  اس میں عورتوں کا مردوں کے سامنے اظہار ہے، جب کہ عورتوں  کو  پردہ  میں اور چھپے رہنے کا حکم ہے۔
  • د : عورتوں کا مردوں کے سامنے  محض  اظہار ہی نہیں بلکہ مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا انوکھا انداز ہے۔
  • ہ: خدا نخواستہ موٹر سائیکل کے  بے قابو ہونے کی صورت میں بے پردگی کا  بھی سخت احتمال ہے۔
  • و:   جرائم پیشہ افراد کا شکار ہونے کا زیادہ خطرہ ہے ۔
  • ز:  اس میں  ہر طرح کے ( جوان اور بڑی عمر کے) مردوں پر نظر پڑنا لازمی امر ہے، اس سے بچنا ممکن نہیں ہے، جب کہ   عورتوں کو بھی حکم ہے کہ وہ غیر محرم مردوں پر نظر نہ ڈالیں۔
  • ح:  اگر  خدانخواستہ   اس  کا رواج ہوگیا تو   عورت  سرِ بازار مردوں کے لیے تماشہ  بن جائے گی،  جب کہ اسلام عورتوں کی   عزت ، آبرو اور عصمت  کو محفوظ رکھنے کے لیے انہیں گھر کی چار دیواری میں رہنے کا حکم دیتا ہے۔
  • ط:  اس  سے  معاشرہ میں بے حیائی کا ناسور پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
  • ی:  اسلامی معاشرے میں مغربی کلچر کو فروغ دے کر دشمنانِ اسلام کی خواہش  میں معاونت کا باعث بھی ہے۔

لہذا اگر   موٹرسائیکل  چلانے کا عرف بھی ہوجائے تب بھی عورتوں کے لیے  دیگر مفاسد موجود ہونےکی وجہ سے موٹر سائیکل چلانا جائز نہیں ہوگا۔

یہ بھی واضح ہو کہ   خواتین کے لیے بلاضرورت  محض شوقیہ  طور پر یا زینت  کے اظہار کے  طور پر گاڑی چلانا جائز  نہیں ہے،اسی طرح اگر ضرورت محرم یا شوہر  کے ساتھ سفر سے پوری ہوجاتی ہو تو خود  گاڑی  چلانے سے اجتناب کیا جائے ، البتہ اگر دینی   یا دنیوی ضرورت ایسی ہو کہ جس کے لیے خود سواری کی ضرورت ہو تو   مکمل پردہ کے اہتمام کے ساتھ ، پُر امن راستے میں  سفر کرنے  کی گنجائش ہوگی، سنسان اور پُرخطر راستوں پر تنہا  نہ جائے،  اگر  مسافتِ سفر  سوا ستتر کلومیٹر سے زائد ہو تو شوہر یا  محرم کے بغیر سفر کرنا جائز نہیں ہوگا۔

قرآن کریم میں ہے:

"{ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} ."[الأحزاب: 33]

”اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکات دیا کرو اور اللہ کا اور اس کے رسول (علیہ السلام) کا کہنا مانو۔“  (بیان القرآن)

’’ أحکام القرآن للفقیہ المفسر العلامۃ محمد شفیع رحمہ اللّٰہ ‘‘  میں ہے:

"قال تعالی : {وقرن في بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاهلیة الأولی} فدلت الآیة علی أن الأصل في حقهن الحجاب بالبیوت والقرار بها، ولکن یستثنی منه مواضع الضرورة فیکتفی فیها الحجاب بالبراقع والجلابیب ... فعلم أن حکم الآیة قرارهن في البیوت إلا لمواضع الضرورة الدینیة کالحج والعمرة بالنص، أو الدنیویة کعیادة قرابتها وزیارتهم أو احتیاج إلی النفقة وأمثالها بالقیاس، نعم! لا تخرج عند الضرورة أیضًا متبرجةّ بزینة تبرج الجاهلیة الأولی، بل في ثیاب بذلة متسترة بالبرقع أو الجلباب، غیر متعطرة ولامتزاحمة في جموع الرجال؛ فلا یجوز لهن الخروج من بیوتهن إلا عند الضرورة بقدر الضرورة مع اهتمام التستر والاحتجاب کل الاهتمام، وما سوی ذلک فمحظور ممنوع."

(3 / 317-319، سورة الأحزاب: آلایة:33)

سنن أبی داود  میں ہے:

"عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:«صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها، وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها»."

 (1/ 94،  کتاب الصلاۃ ،  باب ما جاء فی خروج النساء إلی المسجد، ط: رحمانیة)

صحیح  مسلم  میں ہے:

"عن عمرة بنت عبد الرحمن، أنها سمعت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم تقول: «لو أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى ما أحدث النساء لمنعهن المسجد كما منعت نساء بني إسرائيل». قال: فقلت لعمرة: أنساء بني إسرائيل منعن المسجد؟ قالت: «نعم»." 

(1/ 328،  کتاب الصلاۃ، باب منع نساء بنی إسرائیل المسجد، ط: دار إحياء التراث العربي – بيروت)

صحيح البخاری ميں ہے:

"أنس بن مالك رضي الله عنه قال: أقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من خيبر، وإني لرديف أبي طلحة وهو يسير، وبعض نساء رسول الله صلى الله عليه وسلم رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ عثرت الناقة، فقلت: المرأة، فنزلت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنها أمكم» فشددت الرحل وركب رسول الله صلى الله عليه وسلم."

 (7 / 170، باب إرداف المرأة خلف الرجل، ط: دارطوق النجاة)

دلائل النبوة للبيهقي میں ہے:

"حدثنا مالك بن أنس، عن نافع، عن ابن عمر، قال: كتب عمر بن الخطاب- رضي الله عنه- إلى سعد بن أبي وقاص وهو بالقادسية أن وجه نضلة بن معاوية الأنصاري إلى حلوان العراق... فقال: أنا ذريب بن برثملا وصي العبد الصالح عيسى بن مريم أسكنني هذا الجبل ودعا لي بطول البقاء ... فاقرؤوا عمر مني السلام وقولوا له يا عمر سدد وقارب فقد دنا الأمر واختبروه بهذه الخصال التي أخبركم بها يا عمر إذا ظهرت هذه الخصال في أمة محمد صلى الله عليه وسلم فالهرب الهرب إذا استغنى الرجال بالرجال، والنساء بالنساء ... وخرج الرجل من بيته فقام عليه من هو خير منه، وركبت النساء السروج."

   (5 / 425،426، باب ما جاء في قصة وصي عيسى بن مريم ، ط:دار الكتب العلمية - بيروت)

مرقاة المفاتيح  میں ہے: 

"لأنها قد هيجت شهوة الرجال بعطرها وحملتهم على النظر إليها فقد زنى بعينه، ويحصل لها إثم بأن حملته على النظر إليها وشوشت قلبه، فإذا هي سبب زناه بالعين، فتكون هي أيضا زانية أو كأنها هي زانية، قال ابن الملك: وفيه تشديد ومبالغة في منع النسوة عن خروجهن من بيوتهن إذا تعطرن، وإلا فبعض الأعين قد عصمها الله تعالى عن الزنا بالنظر إليهن."

(3 / 838، باب الجماعة وفضلها، ط: دارالفكر)

فتاوی شامی  میں ہے:

"لا تركب مسلمة على سرج للحديث. هذا لو للتلهي، ولو لحاجة غزو أو حج أو مقصد ديني أو دنيوي لا بد لها منه فلا بأس به.

و في الرد : (قوله : للحديث) وهو «لعن الله الفروج على السروج» ذخيرة. لكن نقل المدني عن أبي الطيب أنه لا أصل له اهـ. يعني بهذا اللفظ وإلا فمعناه ثابت، ففي البخاري وغيره «لعن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - المتشبهين من الرجال بالنساء والمتشبهات من النساء بالرجال» وللطبراني «أن امرأة مرت على رسول الله - صلى الله عليه وسلم - متقلدة قوسا فقال: لعن الله المتشبهات من النساء بالرجال والمتشبهين من الرجال بالنساء» " (قوله: ولو لحاجة غزو إلخ) أي بشرط أن تكون متسترة وأن تكون مع زوج أو محرم (قوله أو مقصد ديني) كسفر لصلة رحم ط."

(6 / 423،  کتاب الحظر والإباحة، ط: سعيد)

البناية شرح الهداية میں ہے: 

"ولهذا يكره للنساء الركوب على السرج؛ لأنهن ليسوا من أهل الجهاد."

(7 / 260، باب الجزية، ط:  دار الكتب العلمية - بيروت، لبنان)

منحة السلوك في شرح تحفة الملوك میں ہے:

"قوله: (ولا تركب المرأة على السرج) لقوله عليه السلام: "لعن الله الفروج على السروج."

قوله : ( إلا للضرورة ) يعني إذا كانت المرأة في سفر الحج وغيره، واضطرت للركوب على السرج، تركب مستديرة، لأن الضرورة تبيح المحظورة."

 (1 / 423، کتاب الکراھیة، ط : وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية - قطر)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ميں هے:

"ولا تركب امرأة مسلمة على السرج لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لعن الله السروج على الفروج» هذا إذا ركبت متلهية أو متزينة لتعرض نفسها على الرجال فإن ركبت لحاجة كالجهاد والحج فلا بأس به."

(8 / 215، كتاب الكراهية، فصل في اللبس، ط:  دار الكتاب الإسلامي)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني ميں هے:

"وقوله: ولا تركب امرأة مسلمة على سرج بظاهره، نهى النساء عن الركوب على السرج، وبه نقول وإنه خرج موافقا لقوله عليه السلام: «لعن الله الفروج على السروج»  والمعنى في النهي من وجهين؛ أحدهما: أن هذا تشبه بالرجال، وقد نهين عن ذلك، الثاني: أن فيه إعلان الفتن وإظهارها للرجال، وقد أمرن بالستر، قالوا: وهذا إذا كانت شابة، وقد ركبت السرج والفرج، فأما إذا كانت عجوزا أو كانت شابة إلا أنها ركبت مع زوجها بعذر بأن ركبت للجهاد، وقد وقعت الحاجة إليهن للجهاد، أو للحج أو للعمرة فلا بأس إن كانت مستترة، فقد صح أن نساء المهاجرين كن يركبن الأفراس، ويخرجن للجهاد، فكان رسول الله عليه السلام يراهن و (لا) ينهاهن، وكذلك بنات خالد بن الوليد كن يركبن، ويخرجن للجهاد يسقين المجاهدين في الصفوف ويداوين الجرحى."

 (5 / 384،كتاب الاستحسان والكراهية، ط : دار الكتب العلميه ، بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100953

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں