بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا کال سنٹر پرکام کرنےکاحکم


سوال

كيا عورت كال سینٹر میں کام کر سکتی ہے؟ کال سینٹر میں فون پر مرد یا عورت کلائینٹ سے ڈیلنگ یا اپوائنٹمنٹ کے حوالے سے بات کرنا شرعاً درست ہے؟

جواب

واضح رہےکہ کال سینٹر   کسی ادارے کے ایسے انتظام وبندوبست   کو کہا جاتا ہے ،جہاں کسٹمر  اپنی شکایات کے حل یا معلومات کے حصول کے لیے فون کرے اور نمائندہ اس کو سہولت فراہم کرے، لہذا جو   کال سینٹر ز کسی ادارے اور کمپنی میں شکایت  سننے یا معلومات وغیرہ فراہم کرنے کے  لیے قائم ہیں ، تو اس میں ملازمت جائز ہونے یا نا جائز ہونے کا مدار  وہاں کے کام پر ہوگا، اگر اس ادارے یا کمپنی کا کام جائز ہو تو ملازمت کرنا جائز ہوگا، ورنہ نہیں،اور عورت پر پردہ کی پابندی کرنا بھی لازم ہو گا۔

اسی طرح  جو    کال سینٹر   ز مستقل   قائم ہیں  اور  بیرون ملک مختلف کمپنیوں  کی اشیاء کی تشہیر کرکے اس کو فروخت کرتے ہیں،  اگر یہ  کام جائز اشیاء کا ہو، اور اس کام میں کوئی اور  شرعی خرابی نہ پائی جائے تو کمیشن پر اس طرح کام کرنا جائز ہے، لیکن اگر اس کام میں جھوٹ بولنا پڑتا ہو، کال سینٹر والے اپنے آپ کو اسی ملک کا ظاہر کرتے  ہوں جس ملک میں کمپنی ہوتی ہے، اور اپنا نام بھی ان ہی ملکوں کے رہائشیوں کی طرح بتائے  جاتے  ہوں،تاکہ خریدار  یہ سمجھے کہ  یہ ہمارے  ملک میں ہی بیٹھ کر ہم سے سودا کررہے ہیں ، تو  اس طرح جھوٹ   بول کر کال سینٹر کا کام  کرنا جائز نہیں  ہے۔

تاہم  عورت کے لیے چوں کہ بلاضرورتِ شرعیہ نامحرم مردوں  سے بات چیت کرنا اوران کے  سامنے ایسی آواز نکالنا جس سے مرد کا قلبی میلان عورت کی طرف ہو، ناجائز ہے،شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے،عام طورجوعورت کال سنٹر میں کام کرتی ہے،اس کی آواز میں  یہی پہلو غالب ہوتا ہے،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگرکال سینٹرکا کام  تو فی نفسہ جائز ہے، لیکن اس میں مردو و زن کا اختلاط ہوتا ہے، اور بے پردگی ہوتی ہے،یا عورت کو نامحرم مردوں سے بات  چیت کرنی ہوتی ہے تو  وہاں ملازمت کرنا جائزنہیں ہو گا۔

"المحیط البرہانی "میں ہے:

" لاتجوز الإجارة على شيء من اللهو والمزامير والطبل وغيره؛ لأنها معصية والإجارة على المعصية باطلة؛ ولأن الأجير مع المستأجر يشتركان في منفعة ذلك فتكون هذه الإجارة واقعة على عمل هو فيه شريك."

(كتاب الإجارات، الفصل الخامس عشر: في بيان ما يجوز من الإجارات، وما لا يجوز، 7/ 482، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"و على هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لايصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعًا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح ... وكذا لو استأجر رجلًا ليقتل له رجلًا أو ليسجنه أو ليضربه ظلمًا وكذا كل إجارة وقعت لمظلمة؛ لأنه استئجار لفعل المعصية فلايكون المعقود عليه مقدور الاستيفاء شرعا، فإن كان ذلك بحق بأن استأجر إنسانًا لقطع عضو جاز."

(كتاب الإجارة، فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة، 4/ 189،ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وصوتها على الراجح وذراعيها على المرجوح.

(قوله: وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله: على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام: «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلايحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولاتلبي جهرًا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها عليه الصلاة والسلام من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة."

 (كتاب الصلاة، مطلب في سترالعورة،1 / 406، ط: سعيد)

امداد الفتاوی میں ہے:

"سوال  :  میں نے اپنے گھر میں عرصہ سے تجوید بقدر احتیاج سکھائی ہے،  اللہ کا شکرہے باقاعدہ پڑھنے لگی ہیں، جن لوگوں کو اِس اَمر کی اِطلاع ہے وہ کبھی آکر یوں کہتے ہیں کہ ہم سننا چاہتے ہیں، اور ہیں معتمد لوگ ، تو  پردہ میں  سنوا دینا جائز ہے یا نہیں  ؟  اگرچہ ایسا کیا نہیں،  بعد علم جیسا ہوگا ویسا کروں گا۔

 الجواب  :  ہرگز جائز نہیں۔" لِاَنَّه اِسْمَاعُ صَوْت الْمَرْأَةِ بِلا ضرورة شرعیة"( کیونکہ یہ عورت کی آواز کو بغیر شرعی ضرورت کے سنانا ہے)۔"

( امداد الفتاوی، 4/200، ط: دارالعلوم کراچی) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100127

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں