بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا بغیر محرم کے دیگر عورتوں کے ساتھ سفر کرنے کا حکم


سوال

کیا وہ عورت جس کے ساتھ محرم نہ ہو، دوسری عورتوں کے ساتھ سفر پر جا سکتی ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ کوئی عورت بغیر محرم کے دوسری عورتوں کے ساتھ اس وقت سفر کرسکتی ہے جب وہ مسافتِِ شرعی ( اڑتالیس میل یا سوا ستتر کلو میٹر)سے کم کی مسافت ہو اور اس میں فتنہ کا خطرہ نہ ہو ،اگرچہ  اس صورت میں بھی احتیاط اس میں ہے کہ اپنے محرم کے ساتھ ہی سفر کرے اور اگر اس نے مسافتِ شرعی یعنی اڑتالیس میل یا سوا ستتر کلو میٹرکے بقدر یا اس سے زیادہ کا سفر کرنا ہو تو اس صورت میں محرم کے بغیر سفر کرنا جائز نہیں اور نہ ہی دوسری عورتوں کے ساتھ(یعنی عورتوں کی جماعت کے ساتھ) یہ سفر کرنا جائز ہے ، چاہے یہ سفر حج یا عمرہ ہی کا کیوں نہ ہو۔

مسلم شریف میں ہے:

"عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا يحل لامرأة، تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم»."

(كتاب الحج،باب سفر المرأة مع محرم إلي حج و غيره،500/1،ط:رحمانية)

مشکوۃ شریف میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تسافر امرأة مسيرة يوم وليلة إلا ومعها ذو محرم»."

"اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "کوئی عورت ایک دن وایک رات کی مسافت کے بقدر بھی سفر نہ کرے علاوہ یہ کہ اس کے ساتھ محرم ہو۔(مظاہرِ حق)

(كتاب المناسك ،الفصل الأول ،224/1،ط:رحمانية)

ہدایہ مع فتح القدیر میں ہے:

"قال: " ويعتبر في المرأة أن يكون لها محرم تحج به أو زوج ولا يجوز لها أن تحج بغيرهما إذا كان بينها وبين مكة مسيرة ثلاثة أيام."

(كتاب الحج،وجوب الحج،419/2،ط:دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(و أما) الذي يخصّ النساء فشرطان: أحدهما أن يكون معها زوجها أو محرم لها فإن لم يوجد أحدهما لايجب عليها الحج. و هذا عندنا، (و لنا) ما روي عن ابن عباس - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ألا «لاتحجنّ امرأة إلا ومعها محرم»، و عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لاتسافر امرأة ثلاثة أيام إلا و معها محرم أو زوج»، و لأنها إذا لم يكن معها زوج، و لا محرم لايؤمن عليها إذ النساء لحم على وضم إلا ما ذب عنه، و لهذا لايجوز لها الخروج وحدها. و الخوف عند اجتماعهن أكثر، و لهذا حرمت الخلوة بالأجنبية، و إن كان معها امرأة أخرى، و الآية لاتتناول النساء حال عدم الزوج، و المحرم معها؛ لأنّ المرأة لاتقدر على الركوب، و النزول بنفسها فتحتاج إلى من يركبها، و ينزلها، و لايجوز ذلك لغير الزوج، و المحرم فلم تكن مستطيعة في هذه الحالة فلايتناولها النص."

(كتاب الحج، فصل شرائط فرضية الحج، 123/2 ،ط: رشيدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(و منها المحرم للمرأة) شابةً كانت أو عجوزًا إذا كانت بينها و بين مكة مسيرة ثلاثة أيام، هكذا في المحيط. و إن كان أقل من ذلك حجت بغير محرم، كذا في البدائع. و المحرم الزوج، و من لايجوز مناكحتها على التأبيد بقرابة أو رضاع أو مصاهرة، كذا في الخلاصة. و يشترط أن يكون مأمونًا عاقلًا بالغًا حرًّا كان أو عبدًا كافرًا كان أو مسلمًا، هكذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب المناسك ، الباب الأول في تفسير الحج وفرضيته ووقته وشرائطه وأركانه،218/1،ط:رشيدية )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101121

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں