کیا عورت کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اجازت ہے؟ اگر اجازت ہے تو شہریت کا طریقہ کار کیا ہے؟
اگر عاقلہ بالغہ لڑکی اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر اپنا نکاح خود کرے تو شرعاً ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے، اگرچہ والدین کی رضامندی کے ساتھ نکاح کرنا ہی پسندیدہ ہے۔ اگر لڑکی نے ولی کی اجازت کے بغیر غیر کفو میں نکاح کیا تو اولاد ہونے سے پہلے پہلے لڑکی کے اولیاء کو کسی مسلمان جج کی عدالت سے رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور اگر کفو میں نکاح کیا ہے توپھر لڑکی کے اولیاء کو وہ نکاح فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ، اور کفو کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا دین، دیانت، مال ونسب، پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو، نیز کفاءت میں مرد کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکے کا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے، لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔
شہریت کے طریقہ کار سے کیا مراد ہے؟ وضاحت کر کے دوبارہ سوال ارسال کریں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا (وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم في الأصح خانية، وخرج ذوو الأرحام والأم والقاضي (الاعتراض في غير الكفء)".
(3/ 55، کتاب النکاح ، باب الولی، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144405100509
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن