بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا اکیلے ڈرائیور کے ساتھ سفر کرنا


سوال

اگر کسی عورت کو اپنی کسی ضرورت کی خاطر گھر سے نکلنا ہو اور کوئی محرم ساتھ جانے کے لیے نہ ہو تو اس صورت میں بہتر صورت خود گاڑی چلا کر جانا ہے یہ ڈرائیور کے ساتھ جانا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عورتوں  کے لیے   شرعی مسافت سفر یعنی سواستتر کلومیٹر کے اندراندرشدید ضرورت کی بنا پر پردہ کے پورے اہتمام کے ساتھ یعنی برقعہ پہن کر چہرہ چھپا کر بغیر محرم کے باہر نکلنے کی  اجازت ہے، لیکن غیر محرم ڈرائیور کے ساتھ کسی عورت کا اکیلے جانا کسی صورت  جائز  نہیں؛ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا  فرمان ہے  کہ:کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ  خلوت میں نہ جائے؛ کیوں کہ تیسرا ان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں عورت  کے لیے ضرورتاً خود گاڑی چلاکر جانا جائز ہے جبکہ اکیلے نامحرم  ڈرائیور کے ساتھ جانا جائز نہیں۔

صحیح البخاری میں ہے:

"عن ‌ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا يخلون رجل بامرأة إلا مع ذي محرم. فقام رجل فقال: يا رسول الله، امرأتي خرجت حاجة واكتتبت في غزوة كذا وكذا، قال: ارجع فحج مع امرأتك."

( كتاب النكاح، باب: لا يخلون رجل بامرأة إلا ذو محرم، والدخول على المغيبة، ٧ / ٣٧، ط: السلطانية)

ترجمہ:

"عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ محرم کے سوا کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے۔ اس پر ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری بیوی حج کرنے گئی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں لکھا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو واپس جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کر"

فتاوی شامی میں ہے:

"وحيث أبحنا لها الخروج فبشرط عدم الزينة في الكل، وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية إلى نظر الرجال واستمالتهم."

 (مطلب في السفر بالزوجة، ج:3، ص:146، ط سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101821

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں