بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے لیے قبرستان جانے کا حکم


سوال

میرے والدین کا انتقال پچھلے  سال چھ  مہینے کے اندر ہوا ہے، ہم تین بہنیں ہیں، بھائی کوئی نہیں،  میں قبرستان جانا چاہتی ہوں، مجھے اجازت ہے کیا؟

جواب

اگر کوئی عورت کسی خاص قبر پر یا قبرستان اس لیے جائے کہ اس کا غم تازہ ہو، اور وہاں جا کر بلند آواز سے رونا دھونا کرے جیسا کہ عورتوں کی عادت ہوتی ہے تو اس عورت کے لیے قبرستان زیارت کے لیے جانا اور وہاں تلاوت کرنا اور وقت گزارنا جائز نہیں ہے، خواہ اپنے شوہر، والدین یا کسی رشتہ دار کی ہی قبر کیوں نہ ہو۔ حدیث مبارک میں ایسی عورتوں پر لعنت آئی ہے۔

اور اگر کوئی بوڑھی عورت، عبرت و نصیحت حاصل کرنے یا تذکرہ آخرت کے لیے قبرستان جائے تو اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ  بے پردگی نہ ہو اور وہاں بلند آواز سے رونا اور جزع فزع نہ کرے۔  لیکن عورتوں میں صبر کا مادہ کم ہوتا ہے، اس لیے بوڑھی عورتوں کا بھی قبرستان نہ جانا ہی بہتر ہے۔ اور جوان عورت کے لیے مذکورہ شرائط کے ساتھ جانا بھی مکروہ ہے۔

اور اگر کسی قبر پر عرس، قبر پرستی یا دیگر منکرات وغیرہ ہوتے ہوں تو وہاں مرد و عورت دونوں کے لیے جانا منع  ہے۔

لہٰذا آپ صبر سے کام لیں اور گھر سے ہی قرآن کریم، درود شریف، اور نفلی صدقات وغیرہ کے ذریعہ اپنے والدین کے لیے ایصالِ ثواب کرتی رہیں، صبر میں آپ کا فائدہ ہے اور ایصالِ ثواب میں والدین کا۔

بخاری  شریف  میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک  حدیث قدسی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب میں کسی مومن بندہ کے کسی پیارے عزیز کی جان قبض کرتا ہوں پھر وہ ثواب کی امید پر صبر کرے تو اس صبر کے بدلہ میں میرے پاس جنت کے سوا کوئی بدلہ نہیں۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک دیکھیے:

ایصالِ ثواب کا حکم

صحيح ابن حبان (ج:7، ص:452، ط: مؤسسة الرسالة - بيروت):

’’عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: لعن الله زائرات القبور.‘‘

ترجمہ: "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اللہ لعنت فرمائے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر۔"

صحيح البخاري (ج:8، ص:90، ط:دار طوق النجاة):

’’عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:  يقول الله تعالى: ما لعبدي المؤمن عندي جزاء، إذا قبضت صفيه من أهل الدنيا ثم احتسبه، إلا الجنة.‘‘

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص:620، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان):

’’قوله: "و قيل تحرم على النساء": و سئل القاضي عن جواز خروج النساء إلى المقابر فقال: لاتسأل عن الجواز و الفساد في مثل هذا و إنما تسأل عن مقدار ما يلحقها من اللعن فيه و اعلم بأنها كلما قصدت الخروج كانت في لعنة الله و ملائكته و إذا خرجت تحفها الشياطين من كل جانب و إذا أتت القبور تلعنها روح الميت و إذا رجعت كانت في لعنة الله، كذا في الشرح عن التتارخانية. قال البدر العيني في شرح البخاري: و حاصل الكلام: أنها تكره للنساء بل تحرم في هذا الزمان لا سيما نساء مصر لأن خروجهن على وجه فيه فساد و فتنة، اهـ. و في السراج: و أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن و البكاء و الندب كما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة و عليه يحمل الحديث الصحيح: لعن الله زائرات القبور، و إن كان للاعتبار و الترحم و التبرك بزيارة قبور الصالحين من غير ما يخالف الشرع فلا بأس به إذا كن عجائز و كره ذلك للشابات كحضورهن في المساجد للجماعات، اهـ. و حاصله: أن محل الرخص لهن إذا كانت الزيارة على وجه ليس فيه فتنة و الأصح أن الرخصة ثابتة للرجال و النساء لأن السيدة فاطمة رضي الله تعالى عنها كانت تزور قبر حمزة رضي الله تعالى عنه كل جمعة و كانت عائشة رضي الله تعالى عنها تزور قبر أخيها عبد الرحمن رضي الله تعالى عنه بمكة، كذا ذكره البدر العيني في شرح البخاري.‘‘

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج:2، ص:210، ط: دار الكتاب الإسلامي):

’’و لم يتكلم المصنف - رحمه الله - على زيارة القبور، و لا بأس ببيانه تكميلا للفائدة قال في البدائع: و لا بأس بزيارة القبور و الدعاء للأموات إن كانوا مؤمنين من غير وطء القبور لقوله صلى الله عليه و سلم: «إني كنت نهيتكم عن زيارة القبور، ألا فزوروها» و لعمل الأمة من لدن رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى يومنا هذا اهـ. و صرح في المجتبى بأنها مندوبة و قيل: تحرم على النساء و الأصح أن الرخصة ثابتة لهما «و كان صلى الله عليه وسلم يعلم السلام على الموتى، السلام عليكم أيها الدار من المؤمنين و المسلمين و إنا - إن شاء الله - بكم لاحقون أنتم لنا فرط و نحن لكم تبع فنسأل الله العافية»، و لا بأس بقراءة القرآن عند القبور و ربما تكون أفضل من غيره و يجوز أن يخفف الله عن أهل القبور شيئا من عذاب القبر أو يقطعه عند دعاء القارئ و تلاوته و فيه ورد آثار «من دخل المقابر فقرأ سورة يس خفف الله عنهم يومئذ و كان له بعدد من فيها حسنات». اهـ و في فتح القدير: و يكره عند القبر كلما لم يعهد من السنة و المعهود منها ليس إلا زيارتها و الدعاء عندها قائما كما كان يفعل صلى الله عليه وسلم في الخروج إلى البقيع اهـ."

و في منحة الخالق:

’’(قوله: و قيل تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن و البكاء و الندب على ما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة، و عليه حمل الحديث «لعن الله زائرات القبور» ، و إن كان للاعتبار و الترحم و التبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز و يكره إذا كن شواب كحضور الجماعة في المساجد.‘‘

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144209201902

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں