بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے لیے بینک کی ملازمت کا حکم


سوال

عورت کے لیے بینک کی ملازمت حلال ہے یا حرام؟

جواب

 بینک  اپنے ملازمین کو تنخواہ سودی کمائی سے ادا کرتا ہے، نیز بینک کی ملازمت میں سودی معاملات میں تعاون ہے؛ اس لیے مرد و عورت، دونوں کے لیے  بینک میں کسی بھی قسم کی ملازمت  حلال نہیں۔

نیز واضح رہے کہ  شریعتِ مطہرہ  میں عورت کو پردہ میں رہنے کی بہت تاکید کی ہوئی ہے اور اس کا اپنے گھر سے نکلنے کو سخت نا پسند کیا گیا ہے، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے معاملہ میں بھی یہ پسند فرمایا کہ عورتیں اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھیں اور اسی کی ترغیب دی،  چنانچہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں آپ کے پیچھے مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں مجھے معلوم ہے، لیکن تمہارا اپنے گھر میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے،   نیز کمانے کی غرض سے بھی عورت کا نکلنا ممنوع قرار دیا گیا ہے،  اور  اُس کا نفقہ  اس کے والد یا شوہر پر لازم کیا گیا ؛ تا کہ گھر سے باہر نکلنے کی حاجت پیش نہ آئے،   شادی سے پہلے اگر اُس کا اپنا مال نہ ہو تو اس کا نفقہ اس کے باپ پر لازم ہے اور شادی کے بعد اس کا نفقہ اس کے شوہر پر لازم کیا ہے، لہذا کمانے کے لیے بھی عورت کا اپنے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔البتہ اگر کسی خاتون کی شدید مجبوری ہو اور کوئی دوسرا کمانے والا نہ ہوتو ایسی صورت میں عورت کے گھر سے نکلنے کی گنجائش ہو گی، لیکن اس میں بھی یہ ضروری ہے کہ عورت مکمل پردے کے ساتھ گھر سے نکلے، کسی نا محرم سے بات چیت نہ ہو،   ایسی ملازمت اختیار نہ کرے جس میں کسی کے ساتھ تنہائی حاصل ہوتی ہو۔

"عن جابر قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم آکل الربا، وموکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء".

(الصحيح لمسلم، با ب لعن آکل الربا، ومؤکله، النسخة الهندیة، ۲/۲۷)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا: یہ سب  (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 121):

"(وأما) النوع السادس: وهو الأجنبيات الحرائر، فلا يحل النظر للأجنبي من الأجنبية الحرة إلى سائر بدنها إلا الوجه والكفين ؛ لقوله تبارك وتعالى: ﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ﴾ [النور: 30] إلا أن النظر إلى مواضع الزينة الظاهرة وهي الوجه والكفان."

الشامية، باب الإ مامة ج۱ص۵۳۹:

"ویکره حضورهن الجماعة ولو لجمعة وعید و وعظ مطلقاً ولو عجوزاً لیلاً علی المذهب المفتی به لفساد الزمان … کما تکره إمامة الرجل لهنّ في بیت لیس معهنّ رجل غیره ولا محرم منه، کأخته أو زوجته أو أمته، أما إذا کان معهنّ واحد ممن ذکر أو أ مهنّ في المساجد لا."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201430

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں