بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

عورت کے انتقال کے بعد نومولود بچے کی پرورش اور رضاعت / مرحومہ کے استعمال کی اشیاء کی تقسیم


سوال

30 دسمبر 2023 کو میری شادی ہوئی، الحمدللہ  اکتوبر 2024 میں اللہ نے بیٹے کی نعمت سے نوازا، اس موقع پر اہلیہ کی طبیعت بگڑی اور اللہ کے حکم سے اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔

اس سلسلہ میں چند سوالات درپیش ہیں:

1۔ اہلیہ کو ان کے گھروالوں کی طرف سے جو سامان  ملاتھا، جس میں سونا، جیولری، کپڑے، فرنیچر وغیرہ شامل ہے، یہ سب چیزیں کیسے تقسیم ہوں گی؟ ورثاء میں شوہر، والدین اور ایک نومولود بیٹا ہے۔

2۔ نومولود بیٹا جو ابھی تین ماہ کا ہے، اس کو فی الحال اس کی خالہ دودھ پلارہی ہیں، کیا میں اس کو اپنے گھر لاکر اس کی چچی سے دودھ پلاسکتا ہوں تاکہ بچہ میرے گھر میں ہی رہے اور تربیت بھی ہوسکے۔

3۔ اگر میں دوسری شادی کروں تو کیا میں اس بچہ کو اپنے ساتھ رکھ سکتا ہوں؟

4۔ شادی کے موقع پر میرے والد صاحب نے بھی کچھ سونا بطور ہدیہ کے میری اہلیہ کو دیا تھا، اس کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

1۔   صورتِ مسئولہ میں سائل کی اہلیہ کے انتقال کے بعد ان کی مملوکہ تمام اشیاء ان کے ورثاء کے درمیان مشترک ہوچکی ہیں، ان میں سے جو چیزیں قابل تقسیم ہیں جیسے، نقدی، سونا، جیولری،فرنیچر، وغیرہ، ان تمام چیزوں کو شرعی قانون کے مطابق تمام ورثاء کے درمیان تقسیم کرنا ضروری ہے، البتہ جو چیزیں تقسیم کے قابل نہیں ہیں، یعنی تقسیم کے بعد وہ قابلِ انتفاع نہیں رہیں گی، جیسے  مرحومہ کے کپڑے وغیرہ،   تو ان کی   تقسیم کا طریقہ  یہ ہے کہ ان تمام اشیاء کو فروخت کردیا جائے،اور پھر اس کی قیمت ،تمام ورثاء کے درمیان شرعی اعتبار سے تقسیم کردی جائے،یا ان تمام اشیاء کی قیمت لگالی جائے،اور پھر قیمت کے اعتبار سے،جس وارث کا جتنا حصہ بنتا ہے،اسی کے بقدر اس کو اتنی اشیاء دے دی جائیں،  اسی طرح اگر ورثاء ان اشیاء کو باہمی رضامندی وطیبِ نفس کے ساتھ آپس میں تقسیم کرلیں تو اس کی بھی اجازت ہے۔ 

  مرحومہ کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحومہ کے حقوقِ متقدمہ یعنی  اگر مرحومہ  پر کوئی  قرضہ ہےتو  اس کو کُل ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد،  اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہے،تو  اس کو باقی مال کے ایک تہائی  میں سے پورا کرنے  کے بعد، باقی کُل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ  کے 12 حصے کرکے3 حصے شوہر کو، 2 حصے والد کو، 2 حصے والدہ  کو اور 5 حصے نومولود بیٹے کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:12

شوہروالدوالدہنومولود بیٹا
3225

فیصد کے اعتبار سے 25 فیصدشوہر کو،16.666 فیصد والد کو، 16.666 فیصد والدہ  کو اور41.666 فیصد نومولود بیٹے کو ملیں گے۔

2۔  حق حضانت یعنی پرورش کے حق میں عورتیں مردوں پر مقدم ہوتی ہیں، ان کو یہ حق مردوں کی نسبت ترجیحاً ملتا ہے، کیونکہ عورتوں میں شفقت و مہربانی کے ساتھ بچوں کی پرورش کے اس حق کو انجام دینا زیادہ پایا جاتا ہے، لہذا ماں کی عدمِ موجودگی میں نانی، پھر دادی، پھر حقیقی بہن کو حق ہوتا ہے کہ بچہ کو اپنی تربیت میں لے، اور یہ حق لڑکے کے لیے سات سال تک رہتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا نومولود بیٹا سات سال تک اپنی نانی کی تربیت میں رہے گا، اس کے بعد سائل کو اپنی تربیت میں لینے کا حق ہوگا، ہاں سات سال تک اس بچہ کا خرچہ سائل کے ذمہ ہی ہوگا۔

باقی جہاں تک دودھ پلانے کی بات ہے تو جب خالہ نے دودھ پلانا شروع کردیا ہے تو اب اسی کو جاری رکھا جائے، خالہ سے لے کر بچہ کو چچی کے حوالہ نہ کیا جائے، نیز بچہ نانی کی تربیت میں ہے تو خالہ کے پاس دودھ پینا اور نانی کی تربیت میں رہنا آسان ہے اس سے کہ چچی کے پاس دودھ پینے آئے اور نانی کے ساتھ رہے۔

 3۔ اگر آپ دوسری شادی کرلیں تب بھی آپ اپنے اس بیٹے کو اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں، بشرطیکہ بچہ کی عمر سات سال سے زائد ہوچکی ہو، سات سال سے پہلے تو بچہ اپنی نانی کے پاس ہوگا۔

4۔ شادی کے موقع پر سائل کے والد نے جو سونا اپنی مرحومہ بہو کو بطور ہدیہ دیا تھا، اگر مرحومہ کو اس پر مکمل قبضہ اور اختیار حاصل ہوچکا تھا، تو وہ سونا مرحومہ کی ملکیت میں ہے، لہذ ا اس سونے کو بھی تمام ورثاء کے درمیان شرعی حصص کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها،

(قوله الخالية إلخ) صفة كاشفة لأن التركة ما تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية."

(کتاب الفرائض، ج:6، ص:759، ط: دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان من له الحضانة فالحضانة تكون للنساء في وقت وتكون للرجال في وقت والأصل فيها النساء؛ لأنهن أشفق وأرفق وأهدى إلى تربية الصغار ثم تصرف إلى الرجال؛ لأنهم على الحماية والصيانة وإقامة مصالح الصغار أقدر ولكل واحد منهما شرط فلا بد من بيان شرط الحضانتين ووقتهما أما التي للنساء فمن شرائطها أن تكون المرأة ذات رحم محرم من الصغار فلا حضانة لبنات العم وبنات الخال وبنات العمة وبنات الخالة؛ لأن مبنى الحضانة على الشفقة، والرحم المحرم هي المختصة بالشفقة ثم يتقدم فيها الأقرب فالأقرب فأحق النساء من ذوات الرحم المحرم بالحضانة الأم؛ لأنه لا أقرب منها ثم أم الأم ثم أم الأب؛ لأن الجدتين وإن استويتا في القرب لكن إحداهما من قبل الأم أولى.

وهذه الولاية مستفادة من قبل الأم فكل من يدلي بقرابة الأم كان أولى؛ لأنها تكون أشفق ثم الأخوات فأم الأب أولى من الأخت؛ لأن لها ولادا فكانت أدخل في الولاية وكذا هي أشفق."

(كتاب الحضانة، فصل في بيان من له الحضانة، ج:4، ص:41، ط:دار الكتب العلمية)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال:) وأم الأم في ذلك سواء بمنزلة الأم بعدها؛ لأن حق الحضانة بسبب الأمومة وهي أم تدلي بأم فهي أولى من أم الأب؛ لأنها تدلي بقرابة الأب، وقرابة الأم في الحضانة مقدمة على قرابة الأب."

(کتاب النکاح، باب حكم الولد عند افتراق الزوجين، ج:5، ص:210، ط: دار المعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل،

(قوله: بالقبض) فيشترط القبض قبل الموت، ولو كانت في مرض الموت للأجنبي كما سبق في كتاب الوقف كذا في الهامش (قوله: بالقبض الكامل) وكل الموهوب له رجلين بقبض الدار فقبضاها جاز خانية."

(کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط: دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144606101825

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں