بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت اعتکاف میں بیٹھتے وقت پورے کمرہ کی نیت کرسکتی ہے


سوال

عورت جب رمضان کے  مسنون اعتکاف میں بیٹھتی ہے، تو وہ پورے  کمرے میں اعتکاف کی نیت کرسکتی ہے یعنی صرف جائے نماز اور سونے کی چار پائی اس کے لیے اعتکاف گاہ ہے یا جس کمرہ میں وہ بیٹھی ہے، اور اس  نے پورے کمرہ کی نیت کی ہے تو پورا کمرہ اس کے لیے اعتکاف گاہ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عورت کے لیے  بہتر  یہ ہے کہ گھر میں  جو جگہ پنج وقتی نماز کے لیے  مختص ہے ، وہاں پر ہی اعتکاف کیا جائے، لیکن اگر گھر میں پہلے سے پنج وقتی نماز کے لیےکوئی جگہ مقرر نہ ہو، یا جگہ مقرر ہو، لیکن وہاں اعتکاف کے لیے بیٹھنے میں مشکل ہورہی ہو، تو ایسی مجبوری کی صورت میں گھر میں کسی بھی جگہ کو نماز کے لیے مختص کرکے وہاں پر اعتکاف کے لیے بیٹھا جاسکتا ہے، نیز اعتکاف کے لیے پورے کمرے یا کمرے کے کچھ حصے کو بھی مختص کیا جاسکتا ہے،تاہم  پورہ  کمرہ  اعتکاف گاہ تب بنے گا  کہ ابتداء اعتکاف میں بیٹھتی ہی پورے کمرہ کی نیت کی جائے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ اگر کمرہ چھوٹا ہے تو پورے کمرے کی نیت کرنا جائز ہے، اور اگر کمرہ بڑا ہے دالان کی طرح تو اس میں کسی ایک کونے یا حصے کو اعتکاف کے لیے خاص کیا جائے پورے کمرے کو نہیں، اور اس جگہ سے پیشاب پاخانہ یا غسل واجب کے علاوہ کسی اور کام کے لیے نہ نکلے۔

المبسوط للسرخسی  میں ہے:

"ولا تعتكف المرأة إلا في ‌مسجد ‌بيتها...وإذا اعتكفت في ‌مسجد ‌بيتها فتلك البقعة في حقها كمسجد الجماعة في حق الرجل لا تخرج منها إلا لحاجة الإنسان فإذا حاضت خرجت ولا يلزمها به الاستقبال إذا كان اعتكافها شهرا أو أكثر ولكنها تصل قضاء أيام الحيض لحين طهرها وقد بينا هذا في الصوم المتتابع في حقها. ومسجد بيتها الموضع الذي تصلي فيه الصلوات الخمس من بيتها."

(كتاب الصوم ، باب الاعتكاف، ج:3، ص:119، ط:دار المعرفة)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"والمرأة تعتكف في مسجد بيتها إذا اعتكفت في مسجد بيتها فتلك البقعة في حقها كمسجد الجماعة في حق الرجل لا تخرج منه إلا لحاجة الإنسان كذا في شرح المبسوط للإمام السرخسي. ولو اعتكفت في مسجد الجماعة جاز ويكره هكذا في محيط السرخسي. والأول أفضل، ومسجد حيها أفضل لها من المسجد الأعظم، ولها أن تعتكف في غير موضع صلاتها من بيتها إذا اعتكفت فيه كذا في التبيين. ولو لم يكن في بيتها مسجد تجعل موضعا منه مسجدا فتعتكف فيه كذا في الزاهدي."

(كتاب الصوم ، الباب السابع في الاعتكاف، ج:1، ص:211، ط:دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لبث (امرأة في مسجد بيتها) ويكره في المسجد، ولا يصح في غير موضع صلاتها من بيتها كما إذا لم يكن فيه مسجد ولا تخرج من بيتها إذا اعتكفت فيه... 
(قوله: في مسجد بيتها) وهو المعد لصلاتها الذي يندب لها ولكل أحد اتخاذه كما في البزازية نهر ومقتضاه أنه يندب للرجل أيضا أن يخصص موضعا من بيته لصلاته النافلة أما الفريضة والاعتكاف فهو في المسجد كما لا يخفى۔۔۔ (قوله كما إذا لم يكن فيه مسجد) أي مسجد بيت وينبغي أنه لو أعدته للصلاة عند إرادة الاعتكاف أن يصح."

(كتاب الصوم ، باب الاعتكاف، ج:2، ص:441، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509101098

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں