بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت بغیر حق کے زندگی گزارنا مشکل کردے تو اسے طلاق دینا جائز ہے


سوال

میری بھابی جو میرے چاچا کی بیٹی ہے، انہوں  نے بہت تنگ کیا ہوا ہے،  وہ بہت جھوٹی باتیں کرتی ہے،  الزم لگاتی ہے ۔میری بہن نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے میری بہن پر الٹا الزام لگایا۔ میری بہن بات کرنے گئی تو میرے چاچا نے  اُس کو کمرے میں بند کردیا اور  اُس کی بچی چھین لی اور  اُس کو مارا۔ میری بہن پر الزام لگایا، میری ماں کوبرا کہا جو کہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔  اس لڑکی نے جھوٹی قسم کھائی قرآن کی ۔ ہم سب بڑے تنگ ہو گئے ہیں اور  اس لڑکی کو نہیں رکھنا چاہتے۔  بھائی بھی نہیں رہنا چاہتا۔  جھوٹی عورت کے ساتھ زندگی گزار نا مشکل ہے،  جو قرآن مجید کی قسم اٹھا لے۔ انہوں نے میری بہن سے بھی قرآن اٹھوایا۔  اب وہ کہتی ہے کہ وہ امید سے ہے،  پریگننٹ ہے۔ آ پ بتائیں جن کو گھر بسانا ہوتا ہے وہ ایسے نند کو مارتے ہیں؟ باتیں تو بہت ہیں یہاں مختصر بتایا، آ پ بتائیں کہ کیا کریں؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائلہ کا بھائی اپنی بیوی کو راہِ راست پر لانے کے لیے وعظ و نصیحت کرے اور اسے سمجھائے۔ اگر وعظ و نصیحت سے باز نہیں آتی تو ایک کمرہ میں رہتے ہوئے بسترہ علیحدہ کردے تاکہ  اسے اپنی نافرمانی کا احساس ہو۔ اگر اس سے بھی باز نہیں آتی تو  وہ اپنی بیوی کو ہلکی پھلکی مار پیٹ کر سکتا ہے لیکن اتنی سخت مارپیٹ جائز نہیں کہ جس سے جسم پر نیل پڑ جائے یا خون نکل جائے وغیرہ۔ اگر اس سے بھی باز نہ آئے اور اپنے آپ کو نہ سدھارے تو دونوں خاندان کے معزز اور سمجھدار بزرگ افراد کے ذریعہ معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاے۔ اگر پھر بھی معاملہ میں بہتری نہ آئے اور دونوں کے درمیان نباہ کی کوئی صورت نہ بنے اور ایک دوسرے کے شرعی حقوق کی ادائیگی مشکل ہو  تو آخری مرحلہ میں بیوی کو صرف ایک طلاق دیدے، اور بہتر ہے کہ حمل کے آخری دنوں میں طلاق دے تاکہ عدت لمبی نہ ہو۔ عدت (بچہ کی پیدائش) کے اندر شوہر کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہوگا اور اگر دورانِ عدت رجوع نہیں کیا تو بچہ کی پیدائش ہوتے ہی نکاح ختم ہوجائے گا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"ومنها ولاية التأديب للزوج إذا لم تطعه فيما يلزم طاعته بأن كانت ناشزة، فله أن يؤدبها لكن على الترتيب، فيعظها أولا على الرفق واللين بأن يقول لها كوني من الصالحات القانتات الحافظات للغيب ولا تكوني من كذا وكذا، فلعل تقبل الموعظة، فتترك النشوز، فإن نجعت فيها الموعظة، ورجعت إلى الفراش وإلا هجرها.

وقيل يخوفها بالهجر أولا والاعتزال عنها، وترك الجماع والمضاجعة، فإن تركت وإلا هجرها لعل نفسها لا تحتمل الهجر، ثم اختلف في كيفية الهجر قيل يهجرها بأن لا يجامعها، ولا يضاجعها على فراشه، وقيل يهجرها بأن لا يكلمها في حال مضاجعته إياها لا أن يترك جماعها ومضاجعتها؛ لأن ذلك حق مشترك بينهما، فيكون في ذلك عليه من الضرر ما عليها، فلا يؤدبها بما يضر بنفسه، ويبطل حقه، وقيل يهجرها بأن يفارقها في المضجع، ويضاجع أخرى في حقها وقسمها؛ لأن حقها عليه في القسم في حال الموافقة وحفظ حدود الله تعالى لا في حال التضييع وخوف النشوز والتنازع وقيل يهجرها بترك مضاجعتها، وجماعها لوقت غلبة شهوتها، وحاجتها لا في وقت حاجته إليها؛ لأن هذا للتأديب والزجر، فينبغي أن يؤدبها لا أن يؤدب نفسه بامتناعه عن المضاجعة في حال حاجته إليها، فإذا هجرها، فإن تركت النشوز، وإلا ضربها عند ذلك ضربا غير مبرح، ولا شائن، والأصل فيه قوله عز وجل {واللاتي تخافون نشوزهن فعظوهن واهجروهن في المضاجع واضربوهن} [النساء: 34] ، فظاهر الآية وإن كان بحرف الواو الموضوعة للجمع المطلق لكن المراد منه الجمع على سبيل الترتيب، والواو تحتمل ذلك، فإن نفع الضرب، وإلا رفع الأمر إلى القاضي ليوجه إليهما حكمين حكما من أهله، وحكما من أهلها كما قال الله تعالى: {وإن خفتم شقاق بينهما فابعثوا حكما من أهله وحكما من أهلها إن يريدا إصلاحا يوفق الله بينهما} [النساء: 35] ، وسبيل هذا سبيل الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر في حق سائر الناس أن الآمر يبدأ بالموعظة على الرفق واللين دون التغليظ في القول، فإن قبلت، وإلا غلظ القول به، فإن قبلت، وإلا بسط يده فيه، وكذلك إذا ارتكبت محظورا سوى النشوز ليس فيه حد مقدر، فللزوج أن يؤدبها تعزيرا لها؛ لأن للزوج أن يعزر زوجته كما للمولى أن يعزر مملوكه."

(كتاب النكاح، فصل المعاشرة بالمعروف، ج2 ص334، دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں