بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

«عقلمند وہ ہے جو موت سے پہلےموت کے بعد والےزندگی کےلیے تیاری کر لے» حدیث کی تخریج وتحقیق


سوال

عقلمند اور ہوشیار شخص وہ ہے جو موت سے پہلےموت کے بعد والی زندگی کےلیے تیاری کر لے ۔اس حدیث کی تحقیق مطلوب ہے۔

جواب

 

سوال میں ذکر کردہ جملہ ایک حدیث   میں موجود ہے، جس کو امام احمد ابن حنبل نے اپنے مسند میں ابوبکر بن ابی مریم (جو کہ متکلم فیہ راوی ہے جس پر آگے کلام آرہا ہے) کے طریق سے نقل کیا ہے  ،روایت ملاحظہ ہو:

"حدثنا علي بن إسحاق قال: أخبرنا عبد الله - يعني ابن المبارك - قال: أخبرنا أبو بكر بن أبي مريم، عن ضمرة بن حبيب، عن شداد بن أوس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الكيس من دان نفسه، وعمل لما بعد الموت، والعاجز من أتبع نفسه هواها، وتمنى على الله»."

(مسند أحمد،‌‌حديث شداد بن أوس، رقم الحديث: 17123،  28/ 350، ط: الرسالة)

مذکورہ حديث اسی راوی( ابوبکر بن ابی مریم) کے طریق سےابوداود طیالسی نے  (مسند أبي داود الطيالسي،أحاديث شداد بن أوس عن النبي صلى الله عليه وسلم، رقم الحديث: 1218،  2/ 445، ط:دار هجر، مصرمیں، امام ابن ماجہ نے(سنن ابن ماجه، كتاب الزهد، باب ذكر الموت والاستعداد له، رقم الحديث: 4260،ص:896، ط:دار الصديق للنشر، الجبيل، السعودية)میں اور امام ابوبکر بزار نے (البحر الزخار،‌‌مسند شداد بن أوس عن النبي صلى الله عليه وسلم، 8/ 417، ط:مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة)میں نقل کیا ہے،   اور اس روایت کو   امام ترمذی نے  (سنن الترمذي، أبواب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب بدون الترجمة،4/450،ط: دار الرسالة العالمية) میںنقل کرتے ہوئے حسن قرار دیا ہے، نیز  امام  ابوعبداللہ حاکم رحمہ اللہ نے بھی (المستدرك على الصحيحين، ‌‌كتاب الإيمان، 1/ 125، ط: دار الكتب العلمية، بيروت) میں    ابن ابی مریم کے طریق سےروایت کیا ہے اور صحیح علی شرط بخاری قرار دیا ، لیکن امام ذہبی نے  حاکم کے قول کی مخالفت کرتے ہوئے  لکھا ہے:

"لا والله، أبو بكر بن أبي مريم المذكور في أسناده واه."

(مختصر تلخيص الذهبي لمستدرك الحاكم، كتاب الإيمان،  1/ 71،ط:دار العاصمة، الرياض)

ابوبكر بن ابی مریم  کے بارے میں بعض ائمہ جرح وتعدیل  کے اقوال  :

"عن أبي داود: سمعت أحمد يقول: ليس بشيء. قال أبو داود: سرق له حلي، فأنكر عقله،وقال أبو حاتم: سألت يحيى بن معين عن أبي بكر بن أبي مريم فضعفه،وقال أبو زرعة الرازي: ضعيف، منكر الحديث،وقال أبو حاتم: ضعيف الحديث، طرقه لصوص فأخذوا متاعه فاختلط،وقال إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني : ليس بالقوي. وقال النسائي، والدارقطني: ضعيف، وقال أبو حاتم بن حبان: كان من خيار أهل الشام، ولكن كان ردئ الحفظ، يحدث بالشئ فيهم، ويكثر ذلك، حتى استحق الترك، وقال عثمان بن سعيد الدارمي، عن دحيم: حمصي من كبار شيوخ حمص، وفي حديثه بعض ما فيه."

(تهذيب الكمال في أسماء الرجال، 33/ 109،ط:مؤسسة الرسالة، بيروت)

مذکورہ  اقوال سے معلوم ہواکہ  راویابوبکر بن ابی مریم   میں ضعف،  حفظ کی وجہ سے ہے ،باقی وہ عادل راوی ہے   ،  جیسا کہ امام ذہبی نے خوداس کی تصریح کی ہے ، چنانچہ میزان الاعتدال میں ان کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

ضعفه أحمد وغيره لكثرة ما يغلط، وكان أحد أوعية العلم، وقال ابن حبان: ردئ الحفظ، لا يحتج به إذا انفرد۔

(ميزان الاعتدال،  4/ 498، ط: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت)

نیزاس حدیث کو  امام طبرانی نے  ابوبکر ابن ابی مریم کے طریق کے علاوہ ایک اورطریق سے نقل کیا ہے، روایت ملاحظہ ہو:

"حدثنا محمد بن عبد الله بن عبد السلام البيروتي مكحول، ثنا إبراهيم بن عمرو بن بكر السكسكي، قال: سمعت أبي يحدث، عن ثور بن يزيد، وغالب بن عبد الله، عن مكحول، عن ابن غنم، عن شداد بن أوس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الكيس من دان نفسه،وعمل لما بعد الموت، والعاجز من أتبع نفسه هواها، وتمنى على الله»."

(المعجم الكبير للطبراني، ‌‌ما أسند شداد، 7/ 281، ط: مكتبة ابن تيمية، القاهرة)

لیکن اس میں بھیإبراهيم بن عمرو بن بكر سكسكي اور انکے والد عمرو  دونوں ضعیف ہیں  جیسا کہ محمدبن حبان نے  فرمایا:

"إبراهيم بنعمروبنبكر السكسكي، يروي عن أبيه الأشياء الموضوعة التي لا تعرف من حديث أبيه، وأبوه أيضا لا شيء في الحديث، فلست أدري: أهو الجاني على أبيه أو أبوه الذي كان يخصه بهذه الموضوعات."

(المجروحين لابن حبان، 1/ 112،ط:دار الوعي، حلب)

اس حدیث کا ایک شاہد بھی موجود ہے جس کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں ذکر کیا، روایت ملاحظہ ہو:

"أخبرنا أبو نصر بن قتادة ثنا أبو علي الرفا ثنا محمد بن يونس ثنا عون بن عمراة العبدي ثنا هشام بن حسان عن ثابت عن أنس بن مالك قال: جاءت بي أم سليم إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله، خادمك أنس فادع له، وهو كيس وهو عاري يا رسول الله، فإن رأيت أن تكسوه رازفيتين يستتر بهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الكيس من عمل لما بعد الموت، والعاري العاري من الدين، اللهم لا عيش إلا عيش الآخرة، اللهم اغفر للأنصار والمهاجرة». عون بن عمارة ضعيف."

(شعب الإيمان، باب في الزهد وقصر الأمل، 7/ 350، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر موقوف ایک حدیث،  جسے امامابن ابیشیبہ نے اپنی مسند میں روایت کیا پہے،  اس  حدیث کے شاہد کے طور پر بیان کی جاتی ہے، روایت ملاحظہ ہو:

"حدثنا وكيع عن جعفر بن برقان عن رجل ۔لم يكن يسميه عن عمر بن الخطاب۔ أنه قال في خطبته:حاسبواأنفسكمقبلأنتحاسبوا، وزنوا أنفسكم قبل أن توزنوا، وتزينوا للعرض الأكبر يوم تعرضون لا يخفى منكم خافية."

(مصنف ابن أبي شيبة،كلام عمر بن الخطاب رضي الله عنه 19/ 308، ط:دار كنوز إشبيليا للنشر والتوزيع، الرياض)

خلاصہ یہ کہ مذکورہ روایت  میں ضعف، ابوبکر بن ابی مریم کی وجہ سے ہے ، لیکن  ان میں کمزوری  حافظہ کی وجہ سے ہے  ،اور اس  روایت کے تابع اور شواہد بھی موجود ہے، اس لیے مذکورہ روایت   کو امام ترمذی نے حسن قرار دیا ہے، اور بظاہر امام ترمذی کی مراد  حسن لغیرہ ہے؛اس لیے کہ انہوں نے  اس کی تائید میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کا قول پیش کیاہے، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے اس شاہد کی وجہ سے حسن قرار دیا ہے، لہذا اس روایت کو بیان کیا جا سکتا ہے۔

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144607101765

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں