بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولیاء کی جازت کے بغیر غیر کفو میں نکاح کرنے کا حکم


سوال

ایک مرد ہے ،جو زانی ہے اور توبہ تائب بھی ہو چُکا ہے ۔ایک عاقل بالغ دین دار اور پاک دامن لڑکی نے اس سے  نکاح کیا ہے ،لیکِن یہ نکاح گھر والوں یعنی لڑکی کے باپ اور بھائی سے چُھپ کر کیا گیا تھا ،نکاح کے وقت نکاح کے مجلس میں دو عاقل بالغ مرد گواہ تھے، ایجاب وقبول کے وقت اُن دونوں گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول کیا گیا تھا اور نکاح قاضی صاحب نے پڑھایا تھا۔

اب پوچھنا یہ ہے کی کیا یہ نکاح درست ہو گیا ہے؟ یا پھرلڑکی کے ولی سے اجازت لےکرنکاح  دوبارہ کرنا پڑے گا  ؟یہ نکاح غیر كفو میں ہوا  ہے،آپ ہمیں اِس نکاح کے بارے میں شرعی حکم بتائیں ۔

جواب

صورت مسؤلہ میں چونکہ دو عاقل بالغ مرد گواہوں کی موجودگی میں  ایجاب وقبول کیا گیا تھا تویہ نکاح شرعاًمنعقد ہوگیا،البتہ  لڑکی  کا اپنے  والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا  شرعاً و اخلاقاً پسندیدہ نہیں ہے، لڑکی کے اولیاء کواس نکاح پراعتراض ہےتو  اولاد ہونے سے  اورحمل ظاہرہونے سے پہلے پہلےلڑکی کے اولیاء کو  عدالت سے  رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرانے کا اختیارہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة  بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا (وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم في الأصح خانية، وخرج ذوو الأرحام والأم والقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح (ما لم) يسكت حتى (تلد منه) لئلا يضيع الولد وينبغي إلحاق الحبل الظاهر به...."

( کتاب النکاح ، باب الولی، 3/ 55،ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض."

(کتاب النکاح، فصل ولاية الندب والاستحباب فی النکاح، 2/ 247،ط: سعید )

فتاوی شامی میں ہے:

" والحاصل: أن المفهوم من كلامهم اعتبار صلاح الكل، وإن من اقتصر على صلاحها أو صلاح آبائها نظر إلى الغالب من أن صلاح الولد والوالد متلازمان، فعلى هذا فالفاسق لايكون كفؤاً لصالحة بنت صالح، بل يكون كفؤا لفاسقة بنت فاسق، وكذا الفاسقة بنت صالح كما نقله في اليعقوبية، فليس لأبيها حق الاعتراض؛ لأن ما يلحقه من العار ببنته أكثر من العار بصهره. وأما إذا كانت صالحةً بنت فاسق فزوجت نفسها من فاسق فليس لأبيها حق الاعتراض؛ لأنه مثله وهي قد رضيت به، وأما إذا كانت صغيرةً فزوجها أبوها من فاسق فإن كان عالماً بفسقه صح العقد، ولا خيار لها إذا كبرت؛ لأن الأب له ذلك ما لم يكن ماجناً كما مر في الباب السابق، وأما إذا كان الأب صالحاً وظن الزوج صالحاً فلايصح، قال في البزازية: زوج بنته من رجل ظنه مصلحاً لايشرب مسكراً فإذا هو مدمن فقالت بعد الكبر: لاأرضى بالنكاح إن لم يكن أبوها يشرب المسكر، ولا عرف به وغلبة أهل بيتها مصلحون فالنكاح باطل بالاتفاق اهـ فاغتنم هذا التحرير فإنه مفرد."

(کتاب النکاح: 3/ 89، ط :سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100973

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں