بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کو عاق کرنے کا حکم


سوال

میرے والد کی،میرے دادا نے ماضی میں شادی کروائی،شادی کے بعد میرے والد نے،دادا سے جائیداد میں حصہ مانگا،تو میرے دادا نے ان کو گھر سے نکال دیا،جس کے بعد میرے والد پنجاب سے کراچی منتقل ہوگئے،اس کے بعد دادا نے،والد کی غیر موجودگی میں ایک اخبار میں اسٹام پیپر بنواکر یہ وصیت کرڈالی کہ میرا بیٹا بد چلن  اور بد کردار ہے،لہذا میں اسے جائیداد سے عاق کرتا ہوں اور میرے مرنے کے بعد اس کا میری جائیداد میں کوئی حصہ نہیں  ہوگا،میں نے اس بیٹے کا حصہ اس کی شادی پر کیے گئے اخراجات اور طلائی زیورات کی شکل میں ادا کردیا ہے،اور اب میری اس جائیداد کے وارث میری دوسری بیوی کےبیٹے اور بیٹیاں ہوں گی،اب سوال یہ ہے کہ میرے والد کا حصہ دادا کی میراث میں سے ہمیں ملے گا یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر شادی پر اخراجات کرتے ہوئے اور طلائی زیورات دیتے ہوئے سائل کے دادا نے اس کے والد سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد، میری وراثت میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہوگا اور سائل کے والد نے اس کو قبول کر لیا تھا،تب تو دادا کی وراثت میں سائل کے والد کا کوئی حصہ نہیں ہے،اور اگر اس طرح کی کچھ بات نہیں ہوئی تھی بلکہ دوسری اولاد کی طرح سائل کے والد کی بھی شادی کرانی تھی تو اس صورت میں  سائل کے والد بھی دیگر ورثاء کی طرح اس مالِ میراث کے حق دار ہیں،اور دادا کا،سائل کےوالد کو اپنی میراث سے عاق کردیناشرعاً معتبر اور  درست نہیں ہے،عاق کرنے کے باوجود بھی سائل کے والد کو اپنے والد کی میراث میں سے حصہ ملے گا۔

"سنن ابن ماجة"میں ہے:

"عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من فر من ‌ميراث وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة."

(ص:902،ج:2،کتاب الوصایا،باب الحيف في الوصية،ط:دار إحياء الكتب العربية)

"رد المحتار"میں ہے:

"واعلم أن الناطفي ذكر عن بعض أشياخه أن المريض إذا عين لواحد من الورثة شيئا كالدار على أن لا يكون له في سائر التركة حق يجوز، وقيل هذا إذا رضي ذلك الوارث به بعد موته فحينئذ يكون تعيين الميت كتعيين باقي الورثة معه كما في الجواهر اهـ. قلت: وحكى القولين في جامع الفصولين فقال: قيل جاز وبه أفتى بعضهم وقيل لا."

(ص:655،ج:6،کتاب الوصايا،ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"قوله وجعله في الأشباه بالاتفاق حيث قال: لا يدخل في ملك أحد شيء بغير اختياره إلا الإرث اتفاقا."

(ص:576،ج:2،کتاب الحج،باب الجنايات في الحج،ط:سعيد)

"ألعقود الدرية في تنقيح فتاوي الحامدية"میں ہے:

"الإرث ‌جبري لا يسقط بالإسقاط وقد أفتى به العلامة الرملي كما هو محرر في فتاواه من الإقرار."

(ص:26،ج:2،کتاب الدعویٰ،ط:دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100199

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں