بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اپنا سب مال دین کی نشرواشاعت کے لیے خرچ کرنا


سوال

سائل  پانچ بیٹیوں  اور پانچ بیٹوں کا باپ ہے، جب کہ ان میں ایک بیٹی اللہ کو پیاری ہوچکی ہے، والدین رحلت فرماچکے ہیں، اور اہلیہ حیات ہے، سائل نے  اپنی ساری اولاد کو پالا پوسا، جوان کیا ، اچھی تعلیم دی اور تربیت کی  اور ان کی شادیاں بھی کروادیں،  بیٹوں کو رہنے کے لیے رہائش بھی دی، انہیں ملازمتیں بھی دلوائیں، اب سب اپنے اپنے گھروں میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ اچھی گزر اوقات کررہے ہیں۔

سائل اپنی ذاتی  جگہ پر ایک دینی ادارہ چلارہا ہے، اور چاہتا ہے کہ اپنا بقیہ مال اللہ کے دین کی اشاعت وترویج اور بقا  کے لیے مدرسہ اور مسجد میں لگا کر اپنے لیے توشۂ آخرت  اور صدقہ جاریہ بنائے، ان حالات میں کیا سائل پر  اس کے  ان ورثاء کا کوئی مزید حق بھی ہے یا سائل اپنا بقیہ ترکہ انفاق فی سبیل کی کی مد میں لگاسکتا ہے؟ راہ نمائی فرمائیں تاکہ  کل قیامت کے دن  اللہ کے ہاں میری بازپرس نہ ہو اور میں کسی کی حق تلفی کا مجرم نہ ٹھہروں۔

وضاحت: بیٹوں کو گھر مالک بناکر نہیں دیا ہے،  بلکہ ایک گھر سائل کا ہے، جس میں  سب بیٹے مشترک رہتے ہیں۔

جو مال  صدقہ جاریہ کے لیے خرچ کرنا چاہتا ہے ، وہ اس رہائشی مکان کے علاوہ ایک آدھ  پلاٹ ہے اور نقد رقم وغیرہ ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل اپنی جائیداد    کودین کی نشرو اشاعت  کے لیے  صدقہ کرنا چاہتا ہے تو  اس کو چاہیے کہ وہ  اپنی  کل جائیداد کا ایک تہائی حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کردے اور بقیہ مال اپنی  اور اپنی اولاد کی ضروریاتِ زندگی کے لیے محفوظ رکھے ؛ تاکہ اولاد کی ممکنہ حق تلفی بھی نہ ہو اور بعد میں کسی قسم کی محتاجی بھی نہ ہو،  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کل مال اللہ کی راہ میں دینے  سے منع فرمایا تھا اور ایک تہائی کے صدقہ کی اجازت دیتے ہوئے فر مایا تھا کہ ایک تہائی بھی بہت ہے، نیز  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ بھی فرمایا: تم اپنے ورثاء  کو اس حال میں   چھوڑو کہ ان کے پاس مال موجود ہو،  یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑو کہ وہ لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کریں۔

البتہ اگر سائل کی تمام عاقل ، بالغ اولاد خوشی  ورضامندی سے یہ  چاہیں کہ سائل اپنا تمام مال اللہ کے راستے میں خرچ کردے اور  سائل  خود بھی اپنا مکمل مال خرچ دینے کے بعد  ہر قسم کی آزمائش پر صبر کرسکتا  ہو   تو پھر  سائل کے لیے اپنا کل مال اللہ کے دین کی نشرو اشاعت کے لیے خرچ کرنا جائز ہوگا۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه، قال: جاء النبي صلى الله عليه وسلم يعودني وأنا بمكة، وهو يكره أن يموت بالأرض التي هاجر منها، قال: "يرحم الله ابن عفراء"، قلت: يا رسول الله، أوصي بمالي كله؟ قال: "لا"، قلت: فالشطر، قال: "لا"، قلت: الثلث، قال: "فالثلث، والثلث كثير، إنك أن تدع ورثتك أغنياء خير من أن تدعهم عالة يتكففون الناس في أيديهم، وإنك مهما أنفقت من نفقة، فإنها صدقة، حتى اللقمة التي ترفعها إلى في امرأتك، وعسى الله أن يرفعك، فينتفع بك ناس ويضر بك آخرون"، ولم يكن له يومئذ إلا ابنة."

(کتاب الوصایا، باب أن يترك ورثته أغنياء خير من أن يتكففوا الناس: 4/ 3، ط: دار طوق النجاة) 

شرح النووي على مسلم میں ہے:

"قوله صلى الله عليه وسلم (وخير الصدقة عن ظهر غنى) معناه أفضل الصدقة ما بقي صاحبها بعدها مستغنيا بما بقي معه وتقديره أفضل الصدقة ما أبقت بعدها غنى يعتمده صاحبها ويستظهر به على مصالحه وحوائجه وإنما كانت هذه أفضل الصدقة بالنسبة إلى من تصدق بجميع ماله لأن من تصدق بالجميع يندم غالبا أو قد يندم إذا احتاج ويود أنه لم يتصدق بخلاف من بقي بعدها مستغنيا فإنه لا يندم عليها بل يسر بها وقد اختلف العلماء في الصدقة بجميع ماله فمذهبنا أنه مستحب لمن لا دين عليه ولا له عيال لا يصبرون بشرط أن يكون ممن يصبر على الاضاقة والفقر فإن لم تجتمع هذه الشروط فهو مكروه. قال القاضي: جوز جمهور العلماء وأئمة الأمصار الصدقة بجميع ماله وقيل يرد جميعها وهو مروي عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه وقيل ينفذ في الثلث هو مذهب أهل الشام وقيل إن زاد على النصف ردت الزيادة وهو محكي عن مكحول قال أبو جعفر والطبري ومع جوازه فالمستحب أن لا يفعله وأن يقتصر على الثلث قوله صلى الله عليه وسلم."

(7 / 125، باب بیان ان الید العلیا خیر من ید السفلی، ط؛ داراحیاء التراث العربی)

فتاوی شامی میں ہے:

"اعلم أن الصدقة تستحب بفاضل عن كفايته وكفاية من يمونه، وإن تصدق بما ينقص مؤنة من يمونه أثم."

 (2 / 357،كتاب الزكاة، باب صدقة الفطر، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307101508

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں