بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کا والد کے ساتھ کام کرنے کا حکم


سوال

ہم دو بھائی ہیں،ہمارے والد کی  زید  نامی شخص کے ساتھ50 فیصد منافع پر کاروبار  میں  شراکت داری ہے ،، ہمارا نگینہ (قیمتی پتھر) کا ہے، زید کے بھی دو بیٹے ہیں، ہم دو بھائی اور زید کے دونوں بیٹے ایک ہی دکان پر کام کرتے ہیں،ہمارا کام یہ ہے کہ ہم بازار میں اور آن لائن مال فروخت کرتے ہیں، والد جو قیمت بتا تے ہیں اس قیمت پر ہی فروخت کرتے ہیں ،اس پر مزیدکوئی نفع نہیں لیتے،   گھر کا مکمل خرچہ والد کرتے ہیں اور ہمیں ہفتہ وار ہزار روپے دیتے ہیں ، تو ہم لوگ جو مال فروخت کرتے ہیں ہماری شرعی حیثیت کیا کہلائے گی؟کیاہم والد اپنی طرف سے اضافی نفع رکھ سکتے ہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں جب  اصل کاروبار کے مالک سائل کے والد اور زید نامی شخص ہے،سائل اور اس کا بھائی اپنے والد کے ساتھ اور اسی طرح زید کے دونوں بیٹے اپنے والد کے ساتھ شرعا  اجیر کی حیثیت   سے کام کررہے ہیں ،اور اجیر  امین ہوتا ہے ، لہذا اجیر  کی حیثیت سے کام کرنے کی وجہ سے  والد صاحب کی بتائی ہوئی قیمت سے زائد اپنی طرف سے نفع لے کر خود رکھ لینا  جائز نہیں بلکہ خیانت ہے۔

ردالمحتار  میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا."

(کتاب الاجارۃ ، باب ضمان الاجیر، ج:6، ص:72، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100384

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں