بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کا والد کے کاروبار میں کام کرنے کی صورت میں کاروبار باپ کا شمار ہوگا


سوال

 میرا آئل کا  کاروبار تھا، جس میں میرے بیٹے بھی میرے ساتھ کام کرتے تھے، اس کاروبار میں سے تقریبا دس لاکھ انسٹھ ہزار روپیہ میں نے پلاٹ خریدنے کے لیے دیے تھے، اس کے علاوہ تقریبا ایک لاکھ روپے کاروبار میں چل رہے تھے، اسی طرح ایک گاڑی تھی تقریبا ساڑھے چار لاکھ روپے کی، اب میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے اور میرے بیٹوں نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے اور مجھے کہہ رہے ہیں کہ ان پیسوں میں آپ کا حق نہیں ہے، اب سوال یہ ہے کہ شرعا  یہ پیسے کس کا حق ہے، جب کہ کاروبار میرا تھا اور میرے بیٹے میرے ساتھ کاروبار کرتے تھے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ ً کاروبارسائل(والد) کا تھا اور بیٹوں کا اس میں کوئی سرمایہ نہیں تھا،بلکہ وہ صرف والد کےساتھ معاونت کے طور پر کام کرتے تھے تو مذکورہ آئل کا کاروبارسائل کا ہی شمار ہوگا،اولاد کے لیے جائز نہیں کہ وہ والد کے کاروبار اوراس سے حاصل ہونے والی آمدنی پر  قبضہ کریں،نیزوالد کواس کی ذاتی جائیداد  سے بےدخل کرناجائز نہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"قال رسول الله صلی الله عليه وسلم: ألا لاتظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(مشكاة المصابيح،باب الغصب والعارية،261/1،ط:رحمانية)

ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خبردار ! کسی  پر ظلم نہ کرنا ،جان لو! کسی بھی دوسرے شخص کا مال (لینا یا استعمال کرنا)اس کی مرضی اور خوشی کے  بغیر حلال نہیں ہے۔(مظاہر حق)

فتاوی شامی میں ہے:

"لما في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب."

(کتاب الشركة،فصل في الشركة الفاسدة،4/ 325،ط:سعید)

 شرح المجلة لسليم رستم باز میں ہے:

"(المادة:97) لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."

(المقالة الثانية،1/51،ط:رشیدية)

 درر الحكام في شرح مجلة الأحكام   میں ہے:

"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير. انظر المادة (1197)."

(کتاب الثانی الإجارۃ،3/ 201،ط:دار الجلیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں