بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کا والدہ کی حیاتی میں ان کا حصہ آپس میں تقسیم کرنے کا حکم


سوال

ہم 5 بہنیں اور 2 بھائی ہیں ،ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوچکا ہے، اور  والدہ حیات ہیں ،لیکن وہ بہت ضعیف ہیں ،یادداشت بے انتہا کمزور ہے، چل پھر تو سکتی ہیں، لیکن پاکی اور ناپاکی کا فرق نہیں رہتا۔ آپ سے دو مسائل معلوم کرنے ہیں: 1۔ کیا والدہ اس حالت میں عمرہ ادا کرسکتی ہیں؟  جب کہ اب وہ کوئی نئی دعائیں وغیرہ یاد نہیں کرسکتیں،اکثر وہ یہ بھی بھول جاتی ہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ 2۔ والدہ کو ان کے میکے کی طرف سے اب کچھ وراثت کا حصہ ملا ہے،لیکن والدہ صاحبہ اس حالت میں نہیں ہیں کہ اسے سنبھال سکیں، یا اس کے متعلق کچھ فیصلہ کرسکیں، کیا ہم ان پیسوں کو بہن بھائیوں میں تقسیم کرسکتے ہیں؟ اگر ہاں تو اس کی تقسیم کیا ہوگی؟ اور اگر نہیں تو اس رقم کا کیا کیا جائے؟ والدہ بھائیوں کے ساتھ رہتی ہیں ،روزانہ کا خرچہ تو وہ ہی اٹھاتے ہیں، لیکن اگر کوئی بڑا خرچہ مثلاً ہسپتال وغیرہ کا آتا ہے تو بہنیں مل کر خرچہ اٹھاتی ہیں۔

جواب

1۔صور ت مسئولہ میں اگر سائلہ کی والد ہ کے لیے ان کی دیکھ بھال اور علاج معالجہ  کا انتظام ممکن ہے، تو شرعی ضوابط اور قواعد  کا خیا ل رکھتے ہوئے انہیں عمرہ ادا کرنے کے لیے لے جایا  جاسکتا ہے، اور جو بھی اولاد ان کی خدمت کا فریضہ سر انجام دے گی، اسے ان شاءاللہ خوب  أجر و ثواب ملے گا،البتہ پاکی کا خاص خیال رکھیں ،خصوصاً مسجدِ حرام اور مسجدِنبوی میں، قضائے حاجت سے فراغت کے بعد جلد انہیں حرم لے جائیں، اور جب تک  حاجت کا تقاضا نہ ہوتاہو ،اتنی دیر رک کر واپس رہائش گاہ آجائیں ،اور  رش کے وقت کے علاوہ کسی اور وقت لے کر جائیں۔

2۔اولاد کا خود سے آپس میں والدہ کا حصہ تقسیم کرلینا  ،ہر گز جا ئز نہیں   ،بلکہ والدہ کو اپنے میکے سے وراثت میں جو کچھ بھی حصہ ملا ہے،وہ  ان ہی کا حق ہےاور ان ہی کی ملکیت ہے، تاہم والدہ کی رقم  والدہ کے اخراجات   ،والدہ کی روزمرہ  ضروریات  اورعلاج معالجہ میں خرچ کرسکتے ہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولاية التصرف للمالك في المملوك باختياره، ليس لأحد ولاية الجبر عليه إلا لضرورة ولا لأحد ولاية المنع عنه وإن كان يتضرر به."

(کتاب الدعوی، فصل فی بیان حکم الملک و الحق، ج:6، ص:263، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101873

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں