بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کا والد سے حصہ اور خرچہ مانگنا


سوال

میں نے دو شادیاں کی تھیں، پہلی بیوی سے دو لڑکے اور ایک لڑکی ہے ،لڑکی کی شادی ہو چکی ہے،  اور بڑے  لڑکے کی بھی شادی ہو چکی ہے اور صاحب اولاد ہے، جبکہ چھوٹا لڑکا بھی 28 سال کا ہے اور عنقریب اس کی بھی شادی ہونے والی ہے ،یہ لڑکے مجھ سے اپنا حصہ اور خرچہ مانگتے ہیں ،میرے پاس نہ کوئی جائیداد ہے، اس وقت میری عمر 56 سال هے، دوسری بیوی بچوں کا خرچہ چلا رہا ہوں اور قرض دار بھی ہوں، بھائی کے گھر کرائے پر رہتا ہوں، آج تک ان لڑکوں نے نہ تو میری کوئی مالی معاونت کی اور نہ کوئی دیکھ بھال سوائے نافرمانی اور بدتمیزی کے اور کچھ نہیں کیا ،پوچھنا یہ ہے نمبر1: کیا میرے اوپر ان کا کوئی حصہ اور خرچہ لازم ہے نمبر دو اور ان پرمیری دیکھ بھال اور خرچہ دینا لازم ہے کہ نہیں؟

جواب

بیٹوں کاجو رویہ اورسلوک سوال میں  نقل کیا گیاہے،نہایت افسوس ناک ہے۔اللہ پاک نےتو اپنے حق کے بعد والدین کےحق کاذکر کیاہے، ایسی اولاد بڑی بدنصیب اوربدقسمت ہے  جو والدین کوستاتی ہے، خصوصاً والد کی ناراضی کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنی ناراضی قراردیا ہے۔ بہرحال آپ صبرکادامن نہ چھوڑیں اوران کے لیے دعاکرتے رہیں اورانہیں اپنے رشتے داروں یا دوستوں کے ذریعے  سمجھانے کی کوشش کریں، جن کا کہا ان پر اثرکرتا ہو۔مذکورہ تمہید کے بعد آپ کے سوالات کاجواب درج ذیل ہے:

1ـ-بالغ نرینہ اولاد جو کمانے کے قابل ہوتو اس کے اخراجات باپ پر لازم نہیں ہوتے ،لہذااگرسائل کے مذکورہ بیٹے کمانے کے قابل ہیں تو والد کے ذمہ ان کا نان و نفقہ یا خرچہ لازم نہیں ہے۔

2۔ والد کی دیکھ بھال بیٹوں پرلازم  ہے،اوروالد ضرورت مندہیں  توبیٹوں پر والد کانفقہ اورخرچہ لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر، فإن نفقة المملوك على مالكه والغني في ماله الحاضر.....(وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقا وزمن ومن يلحقه العار بالتكسب وطالب علم لا يتفرغ لذلك، كذا في الزيلعي والعيني....

(قوله الفقير) أي إن لم يبلغ حد الكسب، فإن بلغه كان للأب أن يؤجره أو يدفعه في حرفة ليكتسب وينفق عليه من كسبه لو كان ذكرا، بخلاف الأنثى كما قدمه في الحضانة عن المؤيدية...."

(باب النفقة،مطلب الصغير والمكتسب نفقة في كسبه لا على أبيه3/ 614،ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

(و) تجب (على موسر) ولو صغيرا (يسار الفطرة) على الأرجح ورجح الزيلعي والكمال إنفاق فاضل كسبه.وفي الخلاصة: المختار أن الكسوب يدخل أبويه في نفقته. وفي المبتغى: للفقير أن يسرق من ابنه الموسر ما يكفيه إن أبى ولا قاضي ثمة وإلا أثم (النفقة لأصوله) ولو أب أمه ذخيرة (الفقراء) ولو قادرين على الكسب........

(قوله لأصوله) إلا الأم المتزوجة فإن نفقتها على الزوج كالبنت المراهقة إذا زوجها أبوها. وقدمنا أن الزوج لو كان معسرا فإن الابن يؤمر بأن يقرضها ثم يرجع عليه إذا أيسر؛ لأن الزوج المعسر كالميت كما صرح به في الذخيرة بحر. والحاصل أن الأم إذا كان لها زوج تجب نفقتها على زوجها لا على ابنها. وهذا لو كان الزوج غير أبيه كما صرح به في الذخيرة، ومفهومه أنه لو كان أباه تجب نفقته ونفقتها على الابن، لكن هذا ظاهر لو كانت الأم معسرة أيضا؛ أما لو كانت موسرة لا تجب نفقتها على ابنها بل على زوجها، وهل يؤمر الابن بالإنفاق عليها ليرجع على أبيه؟ لم أره، نعم لو كان الأب محتاجا إليها فقد مر أن نفقة زوجته حينئذ على ابنه وهذا يشمل ما لو كانت موسرة فتأمل.

(قوله ولو قادرين على الكسب) جزم به في الهداية، فالمعتبر في إيجاب نفقة الوالدين مجرد الفقر، قيل وهو ظاهر الرواية فتح، ثم أيده بكلام الحاكم الشهيد، وقال وهذا جواب الرواية. اهـ والجد كالأب بدائع، فلو كان كل من الابن والأب كسوبا يجب أن يكتسب الابن وينفق على الأب بحر عن الفتح: أي ينفق عليه من فاضل كسبه على قول محمد كما مر (قوله والقول إلخ) أي لو ادعى الولد غنى الأب وأنكره الأب فالقول له والبينة للابن بحر."

 (باب النفقة،مطلب فی نفقة الأصول،3/ 621،ط:سعید)

وفي درر الحكام في شرح مجلة الأحكام :

"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير. انظر المادة "(1197)

(الکتاب الثانی الإجارۃ،3/ 201،ط:دار الجلیل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100281

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں