بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آڈیو کے بیک گراؤنڈ پر ہلکے سر والی آواز کا حکم


سوال

ویلاگز اور صرف آواز پر مشتمل ویڈیو میں بیک گراؤنڈ پر ہلکی سر لگائی جاتی ہے،جو بظاہر کسی گانے وغیرہ کے ساز نہیں ہوتے، اور نہ ہی ان سے کسی قسم کا دل میں جنسی اشتعال پیدا ہوتا ہے، بلکہ وہ صرف ویڈیو اور آواز میں خوبصورتی کے لیے شامل کی جاتی ہے ،کیا ایسی آواز پر ویڈیو بنانا یا لگانا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ موسیقی صرف مخصوص آلات کے ذریعہ آوازوں کی ترتیب کا نام نہیں ہے،بلکہ آلات موسیقی سے بننے والی آوازوں کے مشابہ آواز یں منہ یا کسی جدید آلات وغیرہ سے بنانا بھی موسیقی کے حکم میں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں بیک گراونڈ میں لگائی آواز اگر کسی سُر کے مشابہ معلوم ہورہی ہو،تو وہ بھی موسیقی کے حکم میں ہوکر ناجائز ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"اختلفوا في التغني المجرد قال بعضهم إنه حرام مطلقا والاستماع إليه معصية وهو اختيار شيخ الإسلام ولو سمع بغتة فلا إثم عليه ومنهم من قال لا بأس بأن يتغنى ليستفيد به نظم القوافي والفصاحة ومنهم من قال يجوز التغني لدفع الوحشة إذا كان وحده ولا يكون على سبيل اللهو وإليه مال شمس الأئمة السرخسي."

(کتاب الکراہیة، الباب السابع عشر فی الغناء و اللہو و سائر المعاصی و الامر بالمعروف، ج: 5، ص: 351، ط:دار الفکر)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن  جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء الزرع ، رواه البيهقي في " شعب الإيمان. وعن نافع رحمه الله قال : كنت مع ابن عمر في طريق فسمع مزماراً، فوضع أصبعيه في أذنيه، وناء عن الطريق إلى الجانب الآخر، ثم قال لي بعد أن بعد : يا نافع هل تسمع شيئاً ؟ قلت : لا، فرفع أصبعيه عن أذنيه قال : كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمع صوت يراع، فصنع مثل ما صنعت . قال نافع: فكنت إذ ذاك صغيراً . رواه أحمد وأبو داود."

(کتاب الآداب، باب البیان و الشعر، ج: 3، ص: 1355، ط: المتکب الاسلامی)

البحر الرائق میں ہے:

"استماع صوت الملاهي حرام كالضرب بالقصب وغيره قال  عليه الصلاة والسلام: استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر وهذا خرج على وجه التشديد لا أنه يكفر."

(کتاب الکراہیة، ج: 8، ص: 215، ط: دار الکتاب الاسلامی)

العقود الدرية  میں ہے :

"وسئل أبو يوسف عن الدف أتكرهه في غير العرس لمثل المرأة في منزلها، والصبي (قال) : لا أكرهه وأما الذي يجيء منه اللعب الفاحش، والغناء فإني أكرهه إلى أن قال أي العيني وقال المهلب الذي أنكره أبو بكر - رضي الله تعالى عنه - كثرة التنغيم وإخراج الإنشاد عن وجهه إلى معنى التطريب بالألحان ألا ترى أنه لم ينكر الإنشاد وإنما أنكر مشابهته الزمر بما كان في الغناء الذي فيه اختلاف النغمات وطلب الإطراب فهو الذي يخشى منه وقطع الذريعة فيه أحسن وما كان دون ذلك من الإنشاد ورفع الصوت حتى لا يخفى معنى البيت وما أراده الشاعر بشعره فغير منهي عنه.وقد روي عن عمر - رضي الله تعالى عنه - أنه رخص في غناء الأعراب وهو صوت كالحداء يسمى النصب إلا أنه رقيق. اهـ."

(کتاب الحظر والإباحة، فائدة من البدع المنكرة، ج:2، ص:326،ط: دار المعرفة)

الموسوعہ الفقہیہ میں ہے:

"وأما علم الموسيقى: فهو علم رياضي يعرف منه أحوال النغم والإيقاعات،وكيفية تأليف اللحون،وإيجاد الآلات."

(المادة:علم، ج:30، ص:293، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية،الكويت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101906

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں