بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

اے ٹی ایم کارڈ پر ملنے والی رعایت کا شرعی حکم


سوال

اے ٹی ایم/  ڈیبٹ کارڈز  (ATM / Debit Card) پر ملنے والی رعایت (Discount) کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

 واضح رہے کہ ڈیبٹ کارڈز  (ATM / Debit Card)بنوانا اور اس کا استعمال کرنا فی نفسہٖ جائز ہے، اس کارڈ کے ذریعہ آدمی اتنے ہی پیسوں کی خریداری کرسکتا ہے جتنی رقم اس کے اکاؤنٹ میں موجود ہوتی ہے، اور اس کے لیے اسے سودی معاہدہ نہیں کرنا پڑتا، اورنہ ہی سود لینے دینے کی نوبت آتی ہے، البتہ اے ٹی ایم یا ڈیبٹ کارڈکے ذریعہ ادائیگی کی صورت میں اگر کچھ پیسوں کی رعایت (Discount) ملتی ہے  تو اس کے حکم میں درج ذیل تفصیل ہے:

معلوم کرنا چاہیے کہ وہ رعایت بینک کی طرف سے مل رہی  ہے یا جہاں سے خریداری کی ہے ان کی طرف  سے؟

1۔ اگر یہ رعایت بینک کی طرف سے ملتی ہوتو اس صورت میں رعایت حاصل کرنا شرعاً  جائز نہیں  ہوگا، کیوں کہ یہ رعایت بینک کی طرف سے کارڈ ہولڈر کو اپنے بینک اکاؤنٹ کی وجہ سے مل رہی ہے جو کہ شرعاً قرض کے حکم میں ہے اور جو فائدہ قرض کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے وہ سود کے زمرے میں آتا ہے۔

2۔ البتہ اگر یہ رعایت خود اس کمپنی/ فروخت کنندہ ادارے کی جانب سے ہو جہاں سے خریداری کی جارہی ہے تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہونے کی وجہ سے جائز ہوگا۔

3۔ اوراگر یہ رعایت کارڈ ہولڈر کو بینک اور متعلقہ ادارہ دونوں کی طرف سے مل رہی ہے تو  بینک کی طرف سے دی جانے والی رعایت جائز نہیں ہوگی۔

4۔ اوراگر معلوم نہ ہوسکتا ہو تو کہ رعایت کن کی جانب سے ہے؟ بینک کی جانب سے یا متعلقہ ادارے کی جانب سے تو ایسی صورت میں اس رعایت کے لینے سے  اجتناب کرنا چاہیے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن قرض جر منفعة وسماه ربا".

(كتاب الصرف، باب القرض و الصرف فيه، ج 14، ص 35، ط :دار المعرفة بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(‌وأما) ‌الذي ‌يرجع ‌إلى ‌نفس ‌القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن قرض جر نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض."

( كتاب القرض، فصل في شرائط ركن القرض، ج:7، ص:395، ط:دار الكتب العلمية بیروت)

فتح القدير للكمال ابن الهمام  میں ہے:

"قال (ويجوز للمشتري ‌أن ‌يزيد للبائع في الثمن ويجوز للبائع ‌أن ‌يزيد للمشتري في المبيع، ويجوز أن يحط من الثمن ويتعلق الاستحقاق بجميع ذلك) فالزيادة والحط يلتحقان بأصل العقد عندنا."

 (كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، ج:6، ص:519، ط:دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144512101512

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں