18سال کے لڑکے کا عقیقہ ابھى نہیں ہوا ہے اب اس میں شرعى حکم کیا ہے؟ اور کون کون سى چیزیں مد نظر رکھى جاۓ برائے کرم وضاحت فرماۓ۔
عقیقہ کا مسنون وقت یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کیا جائے، اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے تو چودھویں (14) دن ، ورنہ اکیسویں (21) دن کرے، اس کے بعد بھی اگر کوئی عقیقہ کرے تو نفسِ عقیقہ کی سنت تو ادا ہوجائے گی لیکن وقت کے اعتبار سے سنیت باقی نہیں رہے گی۔ اور اکیسویں دن کے بعد جب بھی عقیقہ کرے تو پیدائش کے دن کے حساب سے ساتویں دن کرے۔ لہذا اٹھارہ (18)سال کے عمر کے لڑکے کا عقیقہ ابھی اس بڑے عمر میں کرنا بھی جائزہے،اور بہتر یہ ہے کہ پیدائش کے دن کے حساب سے ساتویں دن عقیقہ کرے۔نیز عقیقہ کے جانور کی وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور کی ہیں، یعنی بکرے کی عمر سال بھر مکمل ہونا ضروری ہے، اور اگر گائے کو ذبح کرنا ہو تو اس کی عمر دو سال مکمل ہونا ضروری ہے۔
عمدۃ القاری میں ہے:
"أخرجه أصحاب السنن من رواية قتادة عن الحسن عن سمرة عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: الغلام مرتهن بعقيقته، يذبح عنه يوم السابع ويحلق رأسه ويسمى. وقال الترمذي: حسن صحيح. قال: والعمل على هذا عند أهل العلم يستحبون أن يذبح عن الغلام العقيقة يوم السابع. فإن لم يتهيأ يوم السابع فيوم الرابع عشر، فإن لم يتهيأ عق عنه يوم إحدى وعشرين".
(عمدة القاري: باب الفرع (21/ 88)، ط. دار إحياء التراث العربي، بيروت)
فیض الباری میں ہے:
" ثم إن الترمذي أجاز بها إلى يوم إحدى وعشرين. قلتُ: بل يجوز إلى أن يموت؛ لما رأيت في بعض الروايات: أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلّم عقّ عن نفسه بنفسه".
(فيض الباري: كتاب العقيقة، باب إماطة الأذى عن الصبي في العقيقة (5/ 648)، ط.دار الكتب العلمية بيروت، الطبعة الأولى:1426هـ)
اعلاء السنن میں ہے:
"أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع".
(إعلاء السنن: كتاب الذبائح، باب أفضلية ذبح الشاة في العقيقة (17/ 118)، ط. ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ كراتشي، الطبعة الثالثة:1415هـ)
فتاوی شامی میں ہے:
"يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعهں ويحلق رأسهں ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضة أو ذهباں ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعا على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئا أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنة مؤكدة شاتان عن الغلام وشاة عن الجارية غرر الأفكار ملخصا، والله تعالى أعلم."
(حاشية ابن عابدين علي الدر المختار: كتاب الأضحية، خاتمة، قبيل كتاب الحظر والإباحة (6/ 336)، ط. سعيد كراتشي)
فقط واللہ ٲعلم
فتوی نمبر : 144407100761
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن