بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کا حکم


سوال

کیا 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی جائز ہے؟ اور اس كي شرعی  دليل كيا ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ اسلام میں لڑکے یا لڑکی کے لیے شادی کی کوئی خاص عمر متعین و مقرر  نہیں کی گئی ہے، کسی بھی عمر میں شادی کرائی جاسکتی ہے، البتہ بلوغت سے پہلے لڑکے/ لڑکی خود سے شادی نہیں کرسکتے،  بلکہ  ولی  کو ان کی شادی کرانے کا حق ہوتا ہے، چناں چہ  قرآن پاک میں ہے: 

{وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ}

 اس آیت میں ان لڑکیوں کی عدت طلاق تین ماہ بیان  کی  گئی  ہے، جن کو ابھی تک حیض نہیں  آیا، ظاہر ہے کہ  عدت کا سوال طلاق کے بعد ہی  ہوسکتا ہے، اور   جب تک  نکاح  صحیح  نہ  ہو  طلاق کا کوئی احتمال ہی نہیں، اس لیے اس آیت  نے نابالغ لڑکیوں کے نکاح کو واضح طور پر جائز قرار دیا ہے، اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی(نکاح) چھ سال کی عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئی، ہاں  مباشرت کے حوالے سے اسلام میں یہ قید لگائی گئی ہے اگر لڑکی جماع کی متحمل نہ ہو تو شوہر کو اس سے صحبت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی،  اور اگر وہ جماع کی متحمل ہو نیز کسی مرض کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں شوہر کو اس سے صحبت کرنے  کی اجازت  ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں لڑکی کی شادی اٹھارہ سال سے کم عمر میں کرانا جائز ہے، البتہ صحبت کے حوالے سے دیکھا جائے  گا کہ اگر وہ جماع کی متحمل ہے تو پھر اس سے جسمانی صحبت  بھی جائز ہوگی۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عائشة، قالت: تزوجني النبي صلى الله عليه و سلم و أنا بنت ست سنين، و بنى بي و أنا بنت تسع سنين."

(کتاب النکاح، ص:456، ج:1، ط:قدیمی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و اختلفوا في وقت الدخول بالصغيرة فقيل: لايدخل بها ما لم تبلغ، و قيل: يدخل بها إذا بلغت تسع سنين، كذا في البحر الرائق. و أكثر المشايخ على أنه لا عبرة للسن في هذا الباب وإنما العبرة للطاقة إن كانت ضخمة سمينة تطيق الرجال و لايخاف عليها المرض من ذلك؛ كان للزوج أن يدخل بها، و إن لم تبلغ تسع سنين، و إن كانت نحيفةً مهزولةً لاتطيق الجماع و يخاف عليها المرض لايحلّ للزوج أن يدخل بها، و إن كبر سنّها و هو الصحيح."

(کتاب النکاح، الباب الرابع فی الأولیاء فی النکاح، ص:287، ج:1، ط:رشیدیه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307102504

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں