بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آٹھ مہینے بعد بچی کا دودھ چھڑانا


سوال

آٹھ مہینے کے بعد بچی کا دودھ چھڑا دیا تو کیا اس کا گناہ ماں پر ہوگا؟ اگر ہاں تو اس کی تلافی کیسی کی جاۓ؟

جواب

واضح رہے کہ رضاعت (دودھ پلانے)  کی مدت دو سال ہے،   خواہ لڑکا ہو یا لڑکی،  دو سال کے بعد دودھ پلانا جائز نہیں ہے، لیکن  دوسال تک دودھ پلانے کا حکم وجوبی نہیں ہے، لہذا صورت مسئولہ میں اگر کسی عذر کی وجہ سے  بچی کا دودھ آٹھ مہینے کے بعد چھڑایا ہے اور بچی کے لیے اس کی متبادل غذا  بھی موجود ہے تو ماں پر کوئی گناہ نہیں ہوگالیکن اگر ماں کو  عذر نہ ہو تو  اسے بچی کو دودھ پلانا چاہیے کہ یہ بچی کا حق ہے، اور ماں پر دیانتاً واجب ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَاّ وُسْعَها لَا تُضَارَّ والِدَةٌ بِوَلَدِها وَلا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ فَإِنْ أَرادا فِصالاً عَنْ تَراضٍ مِنْهُما وَتَشاوُرٍ فَلا جُناحَ عَلَيْهِما وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ فَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ إِذا سَلَّمْتُمْ مَا آتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِما تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ"(البقرۃ : ۲۳۳)

ترجمہ:"اور مائیں اپنے بچوں کو دوسال کامل دودھ  پلایا کریں،  یہ (مدت)  اس کے لیے ہے جو کوئی شیر خوار گی کی تکمیل کرنا چاہے،  اور جس کا بچہ ہے (یعنی باپ) اس کے ذمے  ہے ان (ماؤ ں) کا کھانا اور کپڑا  قاعدے کے موافق،  کسی شخص کو حکم نہیں دیا جاتا مگر اس کی برداشت کے موافق،  کسی ماں کو تکلیف نہ پہنچانا چاہیے اس کے بچے  کی وجہ سے،  اور نہ کسی باپ کو تکلیف دینی چاہیے اس کے بچے  کی وجہ سے۔    اور مثل  طریق مذکور کے اس کے ذمے  ہے جو وارث ہو ۔  پھر اگر دونوں دودھ  چھڑانا چاہیں اپنی رضامندی اور مشورہ  سے تو دونوں پر کسی قسم کا گناہ نہیں، اور  اگر تم لوگ اپنے بچوں کو (کسی اور انّا کا) دودھ  پلوانا چاہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں، جب کہ  ان کے  حوالہ کردو جو کچھ ان کو دینا طے کیا ہے قاعدہ کے موافق ۔ اور حق تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور یقین رکھو کہ حق تعالیٰ تمھارے کیے ہوئے کاموں کو خوب دیکھ رہے ہیں۔"

تفسیر طبری میں ہے:

"القول في تأويل قوله تعالى: {وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ}

قال أبو جعفر: يعني تعالى ذكره بذلك: والنساء اللواتي بن من أزواجهن ولهن أولاد قد ولدنهم من أزواجهن قبل بينونتهن منهم بطلاق، أو ولدنهم منهم،  بعد فراقهم إياهن، من وطء كان منهم لهن قبل البينونة "يرضعن أولادهن"، يعني بذلك: أنهن أحق برضاعهم من غيرهم.

وليس ذلك بإيجاب من الله تعالى ذكره عليهن رضاعهم، إذا كان المولود له ولد،  حيا موسرا. لأن الله تعالى ذكره قال في"سورة النساء القصرى"  (وَإِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَى) [سورة الطلاق: 6] ، فأخبر تعالى ذكره:  أن الوالدة والمولود له إن تعاسرا في الأجرة التي ترضع بها المرأة ولدها، أن أخرى سواها ترضعه، فلم يوجب عليها فرضا رضاع ولدها. فكان معلوما بذلك أن قوله:"والوالدات يرضعن أولادهن حولين"، دلالة على مبلغ غاية الرضاع التي متى اختلف الوالدان في رضاع المولود بعده، جعل حدا يفصل به بينهما، لا دلالة على أن فرضا على الوالدات رضاع أولادهن.قال أبو جعفر: وأما قوله:"حولين"، فإنه يعني به سنتين."

(البقرۃ :233، 5/ 31، ط : دارالتربیة و التراث)

 فقط و الله اعلم 


فتوی نمبر : 144311101075

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں