بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

استعمال کے زیورات پر زکات کے واجب ہونے کا حکم


سوال

کیا زیر استعمال سونے کے زیورات پر زکات واجب ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ   احناف کے ہاں  سونے اور چاندی پر  جب نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہو ،تو سال گزرنے پر اس پر زکات واجب ہو جاتی ہے ،خواہ وہ زیور کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں،اور خواہ زیرِ استعمال ہو یا ویسے رکھا ہوا ہو،اور اگر  سونا نصاب سے کم ہو  لیکن ساتھ  چاندی یا مال تجارت  یا  اس کے علاوہ  کچھ رقم ہو ، تو اس صورت میں بھی زکات  واجب ہو گی،البتہ اگر صرف سونا ہے یا صرف چاندی ہے اور  نصاب سے کم ہے،اور ساتھ   کچھ بھی نہ ہو ،نہ نقدی نہ مالِ تجارت وغیرہ  تو اس صورت  میں  زکات واجب نہ ہو گی۔

سنن الترمذی میں ہے:

"أن امرأتين أتتا رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي أيديهما سواران من ذهب، ‌فقال ‌لهما: «‌أتؤديان ‌زكاته؟»، قالتا: لا، قال: فقال لهما رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أتحبان أن يسوركما الله بسوارين من نار؟»، قالتا: لا، قال: «فأديا زكاته"۔

(ابواب الزکای، باب ما جاء فی زکات الحلی،ج: 3، ص:20، حدیث:637، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

ترجمہ:دو عورتیں  حاضرِخدمت اقدس ہوئیں ، اُن کے ہاتھوں  میں سونے کے کنگن تھے، ارشاد فرمایا: ’’تم اس کی زکاۃ ادا کرتی ہو؟ عرض کی: نہیں ۔ فرمایا: تو کیا تم اُسے پسند کرتی ہو کہ اﷲ تعالیٰ تمھیں  آگ کے کنگن پہنائے، عرض کی: نہیں ، فرمایا: تو اس کی زکاۃ ادا کرو۔"

بدائع الصنائع میں  ہے:

"ولأن ‌الحلي ‌مال ‌فاضل عن الحاجة الأصلية إذ الإعداد للتجمل والتزين دليل الفضل عن الحاجة الأصلية فكان نعمة لحصول التنعم به فيلزمه شكرها بإخراج جزء منها للفقراء"۔

(كتاب الزكات،فصل صفة نصاب الزكاة في الفضة، ج:2، ص:"17، ط:مطبعة الجمالية بمصر)

وفیہ ایضاً:

"وأما صفة نصاب الذهب فنقول: لا يعتبر في نصاب الذهب أيضا صفة زائدة على كونه ذهبا فتجب الزكاة في المضروب والتبر والمصوغ والحلي إلا على أحد قولي الشافعي في الحلي الذي يحل استعماله والصحيح قولنا؛ لأن قوله تعالى {والذين يكنزون الذهب والفضة} [التوبة: 34] وقول النبي صلى الله عليه وسلم في كتاب عمرو بن حزم وحديث علي يقتضي الوجوب في مطلق الذهب"۔

(کتاب الزکات، فصل صفة نصاب الذهب، ج:2، ص:18، ط:مطبعة الجمالية بمصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101925

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں