بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 جمادى الاخرى 1446ھ 07 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

آستین اوپر کی طرف موڑ کر کے نماز پڑھنے اور آدھی آستین والی شرٹ پہن کر نماز پڑھنے کا حکم


سوال

مجھے نمازپڑھتے وقت ایک آدمی نے کہا کہ شرٹ کو آستین سے اوپر کی طرف موڑ کر یا آدھی آستین والی شرٹ پہن کے نماز پڑھنا  مکروہ ہے ، اس آدمی سے میں نے پوچھا کہ حوالہ دے ، کہ جو کہہ رہا ہے  وہ صحیح ہے، اس نے کہا کہ میں نے ایک عالم سے سنا ہے، آپ بھی چاہو تو کسی عالم سے پوچھ لو کہ کیا صحیح ہے ؟ اگر ایساہے تو برائےمہربانی حوالہ  کے ساتھ  آپ میری راہ نمائی کریں ، میں نے آج تک کسی کتاب یا حدیث میں اس  طرح  کچھ نہیں پڑھا ، البتہ یہ ضرور پڑھا اور سناہے کہ وضوکے بعد پانی نہیں سکھانا چاہیے ، بلکہ پانی ویسا ہی رہنا چاہیے،  اس سے گنا ہ جاتا رہتا ہے ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں   آستین اوپر کی طرف موڑ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے ، اسی طرح  آدھی آستین والی شرٹ میں  نماز پڑھنابھی مکروہ ہے ۔

واضح رہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کے بعد تولیہ یا کپڑے کے کنارہ سے اعضاء خشک کرنااور خشک نہ کرنادونوں طریقے  ثابت ہيں  ، تاہم افضل کیا ہے؟ تو جمہور اہلِ علم کا مسلک یہ ہے کہ خشک کرنا افضل ہے، تاکہ کپڑے تر نہ ہوں اور دوسروں کے لیے اذیت کا باعث نہ بنیں، جب کہ بعض اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ خشک نہ کرنا افضل ہے۔

سنن ترمذی  میں ہے :

"عن عائشة رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: کانت لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرقة ینشف بہا بعد الوضوء."

(اب الطهارة ، باب المنديل بعد الوضوء، ج : 1 ص: 74 ط : مصر)

تحفۃ الأحوذی میں ہے: 

"ومنها حديث أبي مريم إياس بن جعفر عن فلان رجل من الصحابة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان له ‌منديل أو خرقة يمسح بها وجهه إذا توضأ أخرجه النسائي في الكنى بسند صحيح."

"ومنها حديث منيب بن مدرك المكي الأزدي قال رأيت جارية تحمل ‌وضوء ومنديلا فأخذ صلى الله عليه وسلم الماء فتوضأ ومسح بالمنديل وجهه أسنده الإمام مغلطائي في شرحه كذا في عمدة القارىء شرح البخاري للعيني."

(ابواب الطهارة،  باب المنديل بعد الوضوء، ج : 1 ص : 144 ط : دارالكتب العلمية)

صحیح بخاری میں ہے :

"وفي حدیث میمونة رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا: فناولته ثوباً فلم یأخذہ فانطلق وهو ینفض یدیه."

(كتاب الطهارة ، باب نفض اليدين من الغسل عن الجنابة ، ج : 1 ص : 63 ط : السلطانية)

الدر مع الرد میں ہے : 

"(و) كره (كفه) أي رفعه ولو لتراب كمشمر كم أو ذيل (وعبثه به) أي بثوبه (وبجسده) للنهي إلا لحاجة ولا بأس به خارج صلاة."

"(قوله كمشمر كم أو ذيل) أي كما لو دخل في الصلاة وهو مشمر كمه أو ذيله، وأشار بذلك إلى أن الكراهة لا تختص بالكف وهو في الصلاة."

(کتاب الصلاۃ ، باب مایفسد الصلاۃ و مایکرہ فیھا ، ج : 1 ص : 640 ط : سعید) 

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولو صلى رافعا ‌كميه إلى المرفقين كره. كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الصلاۃ ، الفصل الثاني فيما يكره في الصلاة وما لا يكره ، ج : 1 ص : 106 ط : رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102114

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں