بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسائمنٹ لکھوانے پر اجرت لینے کا حکم


سوال

 میری کمپنی جس میں میں کام کرتا ہوں ( سافٹ ویئر ہاؤس ) ہماری کمپنی اکیڈمک رائٹنگ مہیا کرتی ہے، مثال كے طور پر وہ اسائمنٹ  جو اسٹوڈنٹ کو یونیورسٹی سے ملتا ہے خود بنانے كے لیے، اسائنمنٹ رائٹنگ تھیسیس رائٹنگ وغیرہ جو كے یورپی ممالک والوں کو دیتے ہے ، کیا یہ جائز کام ہے ؟

جواب

 واضح رہے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے کی جانب سے طالبِ علم کو دیا گیا وہ کام جس  سے اس طالبِ  علم کی صلاحیت کا امتحان مقصود ہو، اس کی کارکردگی کا تعین ہو  اور اس کی بنیاد پر مستقبل میں اس طالب علم کو سند (Degree) جاری کی جاتی ہو ، ایسا تعلیمی کام طالبِ علم  پر بذاتِ خود سرانجام دینا لازم ہے۔ورنہ مستقبل میں یہی طالبِ  علم  نا اہلی کے باوجود اس ڈگری کی بنیاد پر وہ سہولیات  حاصل کرے گا جو اصل ڈگری والوں کا حق ہے۔

لہذا ایسے طلبہ کے لیےکسی کمپنی کو  اجرت  دے  کر اسائنمنٹ (Assignment) ، مقالہ جات ، مضامین لکھوانا  جھوٹ ، دھوکا  دہی اور دوسروں کی حق تلفی میں شامل ہے،جو کہ جائز نہیں ۔

البتہ   اگر اسائمنٹ،مضامین یا مقالہ  طالب علم خود لکھے ،البتہ اس کی کمپوزنگ ڈیزائیننگ  یا اور کوئی ثانوی کام وغیرہ    مذکورہ کمپنی سے کروائے تو اس طرح کام کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز ہوگا ۔

الموافقات للشاطبى میں ہے:

"أن فعل المباح سبب في مضار كثيرة:- ومنها: أنه سبب في الاشتغال عن الواجبات، ووسيلة إِلى الممنوعات؛......... والثانی : أنا إِذا نظرنا إِلى كونه وسيلة؛ فليس تركه أفضل بإِطلاق, بل هو ثلاثة أقسام:قسم يكون ذريعةإلى منهي عنه؛ فيكون من تلك الجهة مطوب الترك."

(کتاب الاحکام،ج1،ص176،ط:دار ابن عفان)

فتاوی شامی میں ہے :

"و الأجرة إنما تكون ‌في ‌مقابلة ‌العمل."

(کتاب النکاح ،باب المہر،ج:3،ص:156،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں