بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسرائیلی کمپنیوں میں ملازمت کرنے کا حکم


سوال

اسرائیل اور فلسطین کی جنگ کے پیش نظر اسرائیلی کمپنیز کی مصنوعات کا بائیکاٹ ہو رہا ہے، یہاں پاکستان میں اسرائیلی کمپنی کی جو فرنچائزز ہیں ان میں ہزاروں ملازمین ایسے ہیں جو مسلمان ہیں بلکہ اکثریت مسلمانوں کی ہے، ایسی صورت حال میں اگر سیلز کم ہوتی ہیں بائیکاٹ کی وجہ سے تو مسلمان ملازمین کی نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں ،ایسی صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جب کہ اکثر وں نے  یقینی طور پر اسرائیلی کمپنیوں کی سوائے چند کے حمایت بھی نہیں کی ہے۔

جواب

وہ  ممالک یا افراد جو مختلف مواقع پر مسلمانوں پر مظالم ڈھاتے رہتے ہیں، ان کی مصنوعات استعمال کر کے ان کو فائدہ پہنچانا یا ان کی کمپنی پر کام کرکے ان کی معیشت کو فائدہ پہنچانا ایمانی غیرت کے خلاف ہے؛  اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والے ممالک اور ریاستوں کو فائدہ پہنچانے  سے مکمل طور پر گریز کرے، اس نوعیت کا بائیکاٹ کرنا اسلامی غیرت، اہلِ اسلام سے یک جہتی اور دینی حمیت کا مظہر ہوگا۔

لہٰذا بصورتِ مسئولہ اگرچہ اکثر وں نے  یقینی طور پر اسرائیلی کمپنیوں کی  حمایت بھی نہیں کی ہے، سوائے چند کے ،  لیکن  یہ بھی واضح ہے کہ  ان کمپنیوں سے  حاصل ہونے والی آمدنی کا  کچھ نا کچھ  فیصد  اسرائیل کو جاتا ہے،  گویا  ان کمپنیوں میں  ملازمت کرنا اسرائیل کو فائدہ پہنچانا ہے،  اس لیے  جن کمپنیوں کے بارے میں علم ہے کہ وہ اسرائیلی ہیں ان  میں  ملازمت  کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويكره) تحريما (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية (وبيع ما يتخذ منه كالحديد) ونحوه يكره لأهل الحرب (لا) لأهل البغي لعدم تفرغهم لعمله سلاحا لقرب زوالهم، بخلاف أهل الحرب زيلعي.

قلت: وأفاد كلامهم أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريما وإلا فتنزيهانهر.

(قوله: لأنه إعانة على المعصية) ؛ لأنه يقاتل بعينه، بخلاف ما لا يقتل به إلا بصنعة تحدث فيه كالحديد، ونظيره كراهة بيع المعازف؛ لأن المعصية تقام بها عينها، ولا يكره بيع الخشب المتخذة هي منه، وعلى هذا بيع الخمر لا يصح ويصح بيع العنب. والفرق في ذلك كله ما ذكرنا فتح ومثله في البحر عن البدائع، وكذا في الزيلعي لكنه قال بعده وكذا لا يكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكرا وإنما المنكر في استعمالها المحظور. اهـ.

قلت: لكن هذه الأشياء تقام المعصية بعينها لكن ليست هي المقصود الأصلي منها، فإن عين الجارية للخدمة مثلا والغناء عارض فلم تكن عين النكر، بخلاف السلاح فإن المقصود الأصلي منه هو المحاربة به فكان عينه منكرا إذا بيع لأهل الفتنة، فصار المراد بما تقام المعصية به ما كان عينه منكرا بلا عمل صنعة فيه، فخرج نحو الجارية المغنية؛ لأنها ليست عين المنكر، ونحو الحديد والعصير؛ لأنه وإن كان يعمل منه عين المنكر لكنه بصنعة تحدث فلم يكن عينه".

(كتاب الجهاد، باب البغاة، ج:4، ص:268، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102456

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں