بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عصر کی نماز کا وقت سے پہلے پڑھنا / مکہ اور مدینہ میں قصر کے احکام /ڈاڑھی منڈے کی اقتداء کرنا /صفوں کے درمیان فاصلہ /کپڑوں کے موزے پر مسح کرنے کا حکم


سوال

میں کچھ عرصہ پہلے  کام کے سلسلے میں  ریاض آیا ہو ں ،مندرجہ رج ذیل مسائل کے بارے میں پوچھنا چاہتاہوں :

1. عصر کی جماعت کے بارےمیں پوچھنا ہے کہ وہاں عصر کی نماز پہلے پڑھتے ہیں، ہمارے وقت سے پہلے توکیا ا ن کے ساتھ جماعت میں شریک ہونا چاہیے  یا اپنی انفرادی نمازپڑھنی چاہیے ؟اور اگر نماز جماعت سے پڑھ لیں تو اس کا کیا حکم ہوگا ؟

2. مکہ مکرمہ  اور مدینہ منورہ  میں جانا ہو تو وہاں عصر کی نماز کا کیا حکم ہے ؟

3. جس جگہ میں کام کرتاہوں وہاں آس پاس مساجد ہیں ، قریب میں ایک پیٹرول پمپ ہے، کوئی بھی جماعت کرالیتا ہے، جن کی ڈاڑھی نہیں، توجماعت کے ساتھ پڑھنی چاہیے یا انفرادی ؟ دور مساجد بھی ہیں، وہاں بھی اماموں کی شرعی  داڑھیاں نہیں ہیں ،تو ان کے پیچھے نماز  پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟

4.یہاں پر ابھی تک صفوں میں فاصلہ ہے اور ماسک کی پابندی ہے ،ان کے نہ ہونے کی صورت میں جرما نہ ہے  تو اس بارے میں بھی راہ نمائی فرمائیں ۔

5.کچھ لوگ اور امام صاحبان کپڑے کے موزوں پر مسح کرتے ہیں ان کے پیچھے نماز ادا کرنے کا کیا حکم ہے ؟

جواب

1.واضح رہے کہ   ظہر کا وقت اس وقت ختم ہوتا ہے جب سایہ اصلی کے علاوہ  ہر چیز کا سایہ دو مثل ہوجائے ، اس کے بعد عصر کاوقت داخل ہوتا ہے، لہٰذا مثلِ ثانی میں  درست نہیں ہے، البتہ جن ممالک میں دیگر فقہی مسالک رائج ہیں اور مساجد میں نماز مثل اول کے بعد ادا کی جاتی ہے، اور حنفی مسلک کے مطابق مثل ثانی کے بعد جماعت  کے ساتھ نماز کی ادائیگی عذر کی بنا پر صاحبین کے مسلک ( یعنی جب ہر چیز کا سایہ سوائے سایہ اصلی کے  ایک مثل ہوجائے تو  ظہر کا وقت ختم ہوجائے گااور عصر کا وقت شروع ہوجائے گا) پر عمل کرنے بھی گنجائش ہے،  اس لیے عذر کی بنا پر ان کے قول پر عمل کیا   جاسکتا ہے،  البتہ اس  کی مستقل عادت بنانا چوں کہ امام صاحب کے مفتی بہ مذہب کو ترک کرنا ہے؛ اس لیے یہ درست نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں حنفی شخص جہاں رہائش پذیر ہے اگر وہاں  کوئی ایسی مسجد موجود ہو جہاں حنفی مذہب کے مطابق وقت داخل ہونے کے بعد  عصر کی نماز ہوتی ہو تو وہیں جاکر نماز پڑھنا ضروری ہوگا، اسی طرح اگر وہاں حنفی متبعین اپنی جماعت خود کراسکتے ہیں تب بھی مثلِ ثانی کے بعد ہی عصر کی نماز پڑھنا لازم ہوگا، اور  اگر ایسی صورت نہیں بلکہ اس ملک میں  مثلِ اول کے بعد عصر کی  نماز پڑھنے کا تعامل ہو اور  دو مثل  کے بعد نماز پڑھنے کی صورت میں مستقل طور پر جماعت کا ترک لازم آتا ہو، یعنی قریب میں کوئی اور مسجد نہ ہو جہاں عصر کی نماز مثلین کے بعد پڑھی جاتی ہو اور نہ ہی اپنی مرضی سے خود جماعت کراسکتا ہو تو  مثلِ ثانی میں عصر کی نماز کی گنجائش ہوگی۔

البتہ اگر کسی وجہ سے جماعت نہ مل سکے تو (انفرادی طور پر نماز پڑھتے ہوئے) مثلِ  ثانی کے بعد ہی عصر پڑھنا لازم ہوگا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"هل إذا لزم من تأخيره العصر إلى المثلين فوت الجماعة يكون الأولى التأخير أم لا؟ الظاهر الأول، بل يلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام، تأمل، ثم رأيت في آخر شرح المنية ناقلاً عن بعض الفتاوى: أنه لو كان إمام محلته يصلي العشاء قبل غياب الشفق الأبيض، فالأفضل أن يصليها وحده بعد البياض".

(كتاب الصلاة ، ج:1،ص :359،ط:سعید)

2.  مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی، احادیث میں خاص فضیلت وارد ہوئی ہے،اس لیے حرمین شریفین میں مثل اول کے بعد عصر کی نماز باجماعت پڑھنے کی گنجائش ہے، کیوں کہ بعض احناف نے صاحبین کے قول کے مطابق مثل اول کے بعد عصر کی نماز کے جواز کا فتوی دیا ہے اگرچہ جمہور احناف کا مفتی بہ اور احوط قول یہی ہے کہ مثل ثانی کے بعد عصر کی نماز پڑھی جائے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(ووقت الظھر من زواله) … (إلی بلوغ الظل مثلیه) ، وعنه مثله، وهو قولهما وزفر والأئمة الثلاثة، قال الإمام الطحطاوي: وبه نأخذ، وفي غرر الأذکار: وھو المأخوذ به، وفی البرھان: وھو الأظھر لبیان جبریل، وھو نص فی الباب، وفی الفیض: وعلیه عمل الناس الیوم، وبه یفتی، (سوی فیٴ یکون للأشیاء قبل (الزوال)."

(  کتاب الصلاة، ج:1،ص: 359، ط: سعيد) 

3. داڑھی کٹوانا یا  منڈوانا یا ایک مشت سے کم رکھنا گناہِ کبیرہ اور حرام ہے، داڑھی منڈوانا یا ایک مشت سے کم کتروانا فسق ہے، جو شخص داڑھی کاٹ کر ایک مشت سے کم کرے یا مونڈے ایسے شخص کو  امام بنانا مکروہِ  تحریمی ہے، لہذا مذکورہ صورت میں جب ایسا شخص موجود نہ ہو جس کی داڑھی شرعی ضابطہ کے مطابق ہو تو    بہتر یہ ہے کہ سائل  خود آگے بڑھ کر  یا کسی شرعی مقدار  کی داڑھی والے شخص کو نماز پڑھانے کے لیے  آگے کردیا جائے اور اگر مستقل امام ہی ایسا ہو یا خود امامت کروانے میں کوئی مانع ہو تو  ایسے  ڈاڑھی منڈے امام کی اقتدا  میں اگرچہ نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے،  لیکن اگر کہیں قریب میں کوئی اور ایسی مسجد نہ ہو جس میں باشرع امام ہو تو مسجد اور جماعت دونوں کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے اس کی اقتدا میں ہی نماز ادا کرلینی چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و أما الأخذ منها وهي دون ذلك كما فعله بعض المغاربة و مخنثة الرجال فلم يبحه أحد، و أخذ كلها فعل يهود الهند و مجوس الأعاجم".

(كتاب الصوم ، باب مالايفسد الصوم۔۔،ج:    2،    ص:     418     ،ط: سعيد)

وفیه ایضا:

"صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة".

وفیه ايضا:

"(قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع".

(كتاب الصلاة ، باب الامامۃ،ج:1،ص:562، ط: سعيد)

4.  با جماعت نماز میں اقتدا کے درست ہونے کے لیے امام اور مقتدی کی جگہ کا متحد ہونا شرط ہے خواہ حقیقتاً متحد ہوں یا حکماً،لہذا  وبائی امراض یا وائرس  اور جرمانے کے خدشے کی وجہ سے دائیں بائیں فاصلے کے ساتھ کھڑا ہونا بھی مکروہِ تحریمی ہے، یہ عمل نبی کریم ﷺ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے عمل کے خلاف ہے۔

اگر  مقتدر  انتظامیہ صفوں کے اتصال کے ساتھ  نماز  پڑھنےکی اجازت نہ دے تو  اس کا گناہ ان  کے سر ہوگا، تاہم لوگ جماعت ترک نہ کریں، نماز ادا ہوجائے گی، البتہ  صفوں کے درمیان فاصلہ سنتِ متوارثہ کے خلاف ہے ۔

5. مروجہ سوتی یااونی کپڑے سے بنے ہوئے موزوں پر مسح جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ امت کے تمام مستند فقہاء و مجتہدین کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ باریک موزے جس سے پانی چھن جاتا ہو، یا وہ کسی چیز سے باندھے بغیر پنڈلی پر کھڑے نہ رہتے ہوں، یا ان میں تین میل مسلسل چلنا ممکن نہ ہو ، ان پر مسح جائز نہیں ہے ۔ چوں کہ ہمارے زمانے میں سوتی، اونی یا نائیلون کے جو موزے رائج ہیں وہ باریک ہوتے ہیں اور ان میں مذکورہ اوصاف نہیں پائے جاتے؛ اس لیے ان پر مسح کسی حال میں جائز نہیں، اور جو شخص ایسا کرے گا امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ،  بلکہ کسی بھی مجتہد کے مسلک میں اس کا وضو صحیح نہیں ہوگا۔ جب امام کا وضو صحیح نہیں  ہوگا تو مقتدیوں کی نماز بھی صحیح نہیں  ہوگی۔ اور ایسے امام کی اقتدا ناجائز ہے؛  لہذا اگر کسی امام کے بارے میں اس کا یقین ہے کہ وہ اس طرح کرتا ہے تو اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیں ۔

فتاوی شامی ہے:

"(أو جوربيه) ولو من غزل أو شعر (الثخينين) بحيث يمشي فرسخا ويثبت على الساق بنفسه ولا يرى ما تحته ولا يشف۔

وفی الرد: قوله ( أو جوربيه ) الجورب لفافة الرجل،قاموس.  وكأنه تفسير باعتبار اللغة لكن العرف خص اللفافة بما ليس بمخيط والجورب بالمخيط ونحوه الذي يلبس كما يلبس الخف شرح المنية  قوله ( ولو من غزل أو شعر ) دخل فيه الجوخ كما حققه في شرح المنية۔00 وقال: وخرج عنه ما كان من كرباس بالكسر وهو الثوب من القطن الأبيض، ويلحق بالكرباس كل ما كان من نوع الخيط كالكتان والإبريسم ونحوهما،وتوقف ح في وجه عدم جواز المسح عليه إذا وجد فيه الشروط الأربعة التي ذكرها الشارح.

وأقول: الظاهر أنه إذا وجدت فيه الشروط يجوز وأنهم أخرجوه لعدم تأتي الشروط فيه غالبا يدل عليه ما في كافي النسفي حيث علل عدم جواز المسح على الجورب من كرباس بأنه لا يمكن تتابع المشي عليه فإنه يفيد أنه لو أمكن جاز ويدل عليه أيضا ما في ط عن الخانية أن كل ما كان في معنى الخف في إدمان المشي عليه وقطع السفر به ولو من لبد رومي يجوز المسح عليه ا هـ 

قوله ( على الثخينين ) أي اللذين ليسا مجلدين ولا منعلين نهر.وهذا التقييد مستفاد من عطف ما بعده عليه وبه يعلم أنه نعت للجوربين فقط كما هو صريح عبارة الكنز وأما شروط الخف فقد ذكرها أول الباب ومثله الجرموق ولكونه من الجلد غالبا لم يقيده بالثخانة المفسرة بما ذكره الشارح لأن الجلد الملبوس لا يكون إلا كذلك عادة. قوله ( بحيث يمشي فرسخا ) أي فأكثر كما مر وفاعل يمشي ضمير يعود على الجورب والإسناد إليه مجازي أو على اللابس له والعائد محذوف أي به قوله ( بنفسه ) أي من غير شد ط قوله ( ولا يشف ) بتشديد الفاء من شف الثوب رق حتى رأيت ما وراءه من باب ضرب مغرب، وفي بعض الكتب ينشف بالنون قبل الشين من نشف الثوب العرق كسمع ونصر شربه  قاموس.

 والثاني أولى هنا لئلا يتكرر مع قوله تبعا للزيلعي ولا يرى ما تحته لكن فسر في الخانية الأول بأن لا يشف الجورب الماء إلى نفسه كالأديم والصرم وفسر الثاني بأن لا يجاوز الماء إلى القدم وكأن تفسيره الأول مأخوذ من قولهم اشتف ما في الإناء شربه كله كما في القاموس وعليه فلا تكرار فافهم."

(كتاب الطہارۃ، باب المسح على الخفين ،1/ 269،ط :سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308100430

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں