بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلحہ پر زکاۃ


سوال

کیا اسلحہ پر زکاۃ ہوگی؟

جواب

اگر  اسلحہ تجارت کے لیے ہو  اور تنہا یا دیگر قابلِ زکاۃ اموال کے ساتھ اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زیادہ ہو، اور قرض نہ ہو، یا قرض ہو تو اسے منہا کرنے کے بعد بھی نصاب کے بقدر مالِ زکاۃ باقی رہے تو  اس پر سالانہ زکاۃ واجب ہوگی، ورنہ نہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 348):
"كانوا يعني: الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا؛ لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للإنسان منها". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144108201177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں