کیا اسلحہ پر زکاۃ ہوگی؟
اگر اسلحہ تجارت کے لیے ہو اور تنہا یا دیگر قابلِ زکاۃ اموال کے ساتھ اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زیادہ ہو، اور قرض نہ ہو، یا قرض ہو تو اسے منہا کرنے کے بعد بھی نصاب کے بقدر مالِ زکاۃ باقی رہے تو اس پر سالانہ زکاۃ واجب ہوگی، ورنہ نہیں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 348):
"كانوا يعني: الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا؛ لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للإنسان منها". فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144108201177
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن