بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلحہ کے ساتھ نماز ادا کرنا


سوال

سیکورٹی گارڈ یا عام آدمی کا اسلحہ کے ساتھ نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ ہم نے سنا ہے کہ جیب میں لوہا موجود ہو تو نماز نہیں ہوتی ؟

جواب

سیکورٹی گارڈ کے لیے اسلحہ کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے، کیوں کہ اس کی ضرورت ہے، البتہ عام آدمی کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگراسلحہ ایسا ہو کہ اس کے ساتھ نماز پڑھنے سے نماز سے توجہ نہ ہٹتی ہو تو اس میں نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے،اور اگر توجہ ہٹ جاتی ہے تو مکروہ ہے اور اگر  جیب میں کوئی لوہا رکھا ہوا ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے سے  نماز پر کوئی فرق نہیں پڑے گا،البتہ اگر مرد نے لوہے کا کوئی زیور پہن کر نماز ادا کی ہو تو وہ کراہت کے ساتھ ادا ہوگی، کیوں کہ مردوں کے لیے لوہے کا  زیورپہننا ناجائز ہے،لہذاصورت مسئولہ میں اگر اسلحہ کے ساتھ  نماز  پڑھنے سے توجہ منتشر نہ ہوتی ہوتو اس کے ساتھ نماز پڑھنا بلا کراہت  جائز ہے۔

سنن ابی داود میں ہے:

"حدثنا سعيد بن منصور، حدثنا شهاب بن خراش، حدثني شعيب ابن رزيق الطائفي، قال: جلست إلى رجل له صحبة  من رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقال له: الحكم ابن حزن الكلفي، فأنشأ يحدثنا قال: وفدت إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - سابع سبعة، أو تاسع تسعة، فدخلنا عليه فقلنا: يا رسول الله، زرناك فادع الله لنا بخير، فأمر بنا - أو أمر لنا -، بشيء من التمر، والشأن إذ ذاك دون، فأقمنا بها أياما شهدنا فيها الجمعة مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقام متوكئا على عصا - أو قوس - فحمد الله، وأثنى عليه كلمات خفيفات طيبات مباركات."

(باب الرجل یخطب علی قوس ، جلد۲، ص:۳۱۸، ط: دار الرسالۃ  العالمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: بسيف) أي متقلدا به كما في البحر عن المضمرات ويخالفه ظاهر ما يأتي عن الحاوي لكن وفق في النهر بإمكان إمساكه مع التقلد (قوله في بلدة فتحت به) أي بالسيف ليريهم أنها فتحت بالسيف فإذا رجعتم عن الإسلام فذلك باق في أيدي المسلمين يقاتلونكم حتى ترجعوا إلى الإسلام درر (قوله كمكة) أي فإنها فتحت عنوة كما قاله أبو حنيفة ومالك والأوزاعي وقال الشافعي وأحمد وطائفة: فتحت صلحا إسماعيل عن تاريخ مكة للقطبي (قوله كالمدينة) فإنها فتحت بالقرآن إمداد (قوله وفي الخلاصة إلخ) استشكله في الحلية بأنه في رواية أبي داود «أنه - صلى الله عليه وسلم - قام: أي في الخطبة متوكئا على عصا أو قوس» . اهـ. ونقل القهستاني عن المحيط أن أخذ العصا سنة كالقيام."

(باب الجمعۃ ، جلد۲، ص:۱۶۳، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا بأس أن يصلي متقلدا للقوس والجعبة إلا أن يتحركا عليه حركة تشغله فحينئذ مكروه ويجزيه. كذا في السراج الوهاج."

(کتاب الصلاۃ ، الفصل الثاني فيما يكره في الصلاة وما لا يكره،جلد۱، ص:۱۰۹، ط: دار الفکر بیروت) 

مراقی الفلاح میں ہے:

"ولا" يكره "تقلد" المصلي "بسيف ونحوه إذا لم يشتغل بحركته" وإن شغله كره في غير حال القتال."

(جلد ۲، ص: ۴۱۱، ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وفي الخجندي التختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجال والنساء جميعا."

(کتاب الکراہیۃ،ج:۵،ص:۳۳۵،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100792

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں