بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ کہنے والے کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا حکم


سوال

کیا ایسے شخص کے پیچھے نماز جائز ہے،  جو یہ کلمات  ( الصلوة والسلام عليك يارسول الله) ادا کرتا ہو؟

جواب

 الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ کہنے کا حکم:

اہلِ سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حاضر و ناظر ذات صرف باری تعالی کی ذاتِ اقدس ہے، اس کے علاوہ کائنات میں کوئی بھی ایسی ذات نہیں جو ہر جگہ موجود ہو اور سب کچھ دیکھ اور سن رہی ہو، یہاں تک کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم بھی حاضر و ناظر نہیں، اور  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حاضر و ناظر کا عقیدہ رکھنا فقهاءِ كرام كي تصريحات كے مطابق ”کفر “ ہے۔

نیز  اہلِ  سنت و الجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبرِ اطہر میں حیات ہیں، اور جو شخص روضۂ  رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہوکر سلام پیش کرتا ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس اسے سنتے اور جواب دیتے ہیں، جس کی وجہ سے روضہ رسول پر کھڑے ہو کر ندا (یعنی ”یا رسول اللّٰه “) و صیغہ خطاب( یعنی ’’الصلاة والسلام علیك یا رسول اللّٰه “) کے ذریعہ سلام پیش کرنا جائز ہے، البتہ  روضہ مبارک کے علاوہ دنیا کے کسی اور مقام سے درود پڑھا جائے تو  اللہ رب العزت کی جانب سے مقرر کیے ہوئے  فرشتے پڑھے جانے والے درود کو پڑھنے والے کے نام کے ساتھ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے ہیں، جیساکہ مختلف احادیث میں ہے۔

مذکورہ بالا تمہید سے معلوم ہوا  کہ  ”یا رسول اللّٰه “ کہنا مطلقاً ممنوع نہیں ہے، بلکہ اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، ان صورتوں کے اعتبار سے اس کا حکم بھی مختلف ہوگا:

(1)   غائبانہ اس عقیدے سے کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرح ہرجگہ  حاضر وناظر ہیں، ہماری ہرپکار اور فریاد کو سننے والے ہیں، حاجت روا ہیں؛ ناجائز اور شرک ہے۔ 

(2)  روضہٴ اطہر کے سامنے کھڑے ہوکر ’’السلام علیكم یارسول اللّٰه‘‘یا ’’السلام علیك یارسول اللّٰه‘‘ یا  ’’الصلاة والسلام علیك یا رسول اللّٰه‘‘  کہنا جائز ہے، اس لیے کہ لفظ ”یا“ کے ذریعے اسی کو مخاطب کیا جاتا ہے، جو سامنے حاضر ہو،اور روضہ اطہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف حیات ہیں، بلکہ سلام کا جواب بھی دیتے ہیں، لہٰذا سامنے موجود ہونے کی صورت میں خطاب درست ہے۔

(3) صحیح عقیدہ ( کہ  میرا سلام فرشتے پہنچا دیں گے) کے ساتھ دور  سے  ’’الصلاة والسلام علیك یا رسول اللّٰه‘‘  پڑھنے کی اگرچہ اجازت ہے، تاہم اس طرح پڑھنے سے لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ حضرت  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو  (اہلِ بدعت کی طرح) حاضر و ناظر سمجھ کر اس طرح پڑھا جارہاہے، دل کا حال کسی کو معلوم نہیں؛  اس  لیے روضۂ رسول ﷺ کے علاوہ دیگر جگہوں میں اس جملہ سے احتیاط بہتر ہے، اس لیے علمائے کرام غائبانہ اس لفظ کے ذریعہ درود و سلام پڑھنے سے منع کرتے ہیں، لہذا درود و سلام کا وہ طریقہ اپنانا چاہیے، جس میں کسی قسم کا شبہ شرک نہ ہو،  اور ایسے الفاظ میں درود و سلام بھیجنا جو  رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہوں، زیادہ بہتر ہے۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے :

"سوال: یا رسول اللہ کہنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب : یا رسول اللہ  کہنے میں بڑی تفصیل ہے، بعض طریقے سے جائز اور بعض طریقے سے ناجائز ہے  . مطلب یہ کہ نزدیک ہو یا دور صحیح عقیدہ کے ساتھ صلوۃ وسلام پڑھتے وقت ”یا رسول اللّٰه“  کہا جائے تو وہ جائز ہے، مگر یہ عقیدہ ہو نا  چاہیے کہ دور سے پڑھتے ہو ئے درود وسلام آپ کو بذریعہ فرشتہ پہنچائے جاتے ہیں ، خدا کی طرح بنفسِ نفیس سن لینے کا عقیدہ نہ رکھے ، اسی طرح التحیات میں ’’ السلام علیك أیها النبي‘‘کہہ کر سلام پہنچایا جاتا ہے، اس میں کو ئی شک وشبہ نہیں ، نیز قرآن پاک پڑھتے وقت    {یا ایها المزمل}عبارت کے طور پر پڑھا جاتا ہے، اس میں بھی کوئی  حرج نہیں ہے، اس کو حاضروناظر کی دلیل بنا لینا جہالت ہے، نیز حاضر کے عقیدے کے بغیر فقط جوش ِ محبت میں یا رسول اللہ کہا جائے، یہ بھی جائز ہے ، کبھی صرف تخیل کے طریقے کے ساتھ شاعرانہ وعاشقانہ خطاب کیا جاتا ہے، اس میں بھی کو ئی حرج نہیں ، شعر اء تو دیواروں اور کھنڈرات کو مخاطب بناتے ہیں، یہ ایک محاورہ ہے، حاضر وناظر کا کوئی عقیدہ یہاں نہیں ہو تا ، البتہ بدوں صلاۃ وسلام حاضر ناظر جان کر حاجت روائی کے  لیے اٹھتے بیٹھتے ’’یا رسول اللہ‘‘ ، ’’یا علی‘‘ ، ’’یا غوث ‘‘ وغیرہ کہنا بے شک نا جائز اور ممنوع ہے ۔"

(یارسول اللہ کہنا کیسا ہے، ج:2، ص:108، ط:دارالاشاعت)

 الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ کہنے والے کی اقتدا  میں نماز پڑھنے کا حکم:

اگر کوئی شخص مذکورہ  الفاظ صحیح عقیدہ کی بنا  پر پڑھتا ہے تو اس کی اقتدا  میں بلاشبہ نماز پڑھنا درست ہے، تاہم اگر وہ غلط عقیدے کی بنا  پر پڑھتا ہے جو کہ کہنا شرعاً حرام اور ناجائز ہے، تو ایسا شخص مرتکب حرام ہونے کی وجہ سے فاسق ہے،اسی طرح اگر وہ اذان سے پہلے یہ کلمات ادا کرتا ہے تو بدعت  کا ارتکاب کرتا  ہے،بدعتی ہونے کی وجہ سےاس کی امامت مکروہِ تحریمی ہے، ایسے شخص کی اقتدا  میں نماز پڑھنے کے بجائے کسی متقی، پرہیزگار امام کی اقتدا  میں نماز پڑھنی  چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: و فاسق) من الفسق: و هو الخروج عن الاستقامة، و لعل المراد به من يرتكب الكبائر كشارب الخمر، و الزاني وآكل الربا و نحو ذلك.

و أما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لايهتم لأمر دينه، و بأن في تقديمه للإمامة تعظيمه، و قد وجب عليهم إهانته شرعًا."

(کتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:560، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201453

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں