بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اصلاح ذات البین کے فضائل


سوال

ہمارے ہاں جس شخص کی ازدواجی زندگی اجڑنے جا رہی ہو، اُسے نبھانے ( زندگی گزارنے ) کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے اور مثال یہ دی جاتی ہے کہ ایک زندگی کو اجڑنے سے بچانا ،کعبہ کی تعمیر کرنے کےبرابر باعثِ ثواب ہے ،کیا یہ الفاظ استعمال کرنا صحیح ہے یا غلط ؟ کیا اس طرح کا کوئی قول ثابت ہے ؟  

جواب

واضح رہے کہ ا یک زندگی کو اجڑنے سے بچانا اور اُسے نبھانے ( زندگی گزارنے ) کے لیے آمادہ کرنا اچھی بات  اور پسندیدہ عمل ہے،قرآن و حدیث میں اس عمل پر بہت سے فضائل بھی وارد ہوۓہیں، لیکن"  کعبہ کی تعمیر کرنے کےبرابر باعثِ ثواب ہونا "  اس  طرح  کاقول   تلاش کرنے  کےباوجود نہیں ملا  ،البتہ سعید ابوالخیرنے اپنی کتاب (گنجور )میں لکھاہے :

دل بدست آور که حج اکبر است

از هزاران کعبه یک دل بهتر است

ترجمہ:دوسرے لوگوں کے دل جیتنا مکہ میں حج کرنے کے برابر ہے، ایک دل ہزاروں کعبوں سے بہتر ہے۔

تاہم یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ  احادیث و آثار میں ایسی بات نہیں مل سکی۔

جامع العلوم والحکم میں ہے:

"قوله: «والله في عونِ العبد ما كان العبدُ في عون أخيه» وفي حديث ابن عمر: «ومن كان في حاجةِ أخيه، كان الله في حاجته». وقد سبق في شرح الحديث الخامس والعشرين والسادس والعشرين فضلُ قضاءِ الحوائجِ والسَّعي فيها. وخرَّج الطبراني من حديث عمر مرفوعاً: «أفضلُ الأعمال إدخالُ السُّرور على المؤمن: كسوت عورته، أو أشبعت جَوْعَتُه، أو قضيت له حاجة».

وبعث الحسنُ البصريُّ قوماً من أصحابه في قضاء حاجة لرجل وقال لهم: مرُّوا بثابت البناني، فخذوه معكم، فأتوا ثابتاً، فقال: أنا معتكف، فرجعوا إلى الحسن فأخبروه، فقال: قولوا له: يا أعمش أما تعلم أنَّ مشيك في حاجةِ أخيك المسلم خير لك مِنْ حجة بعد حَجَّةٍ؟ فرجعوا إلى ثابتٍ، فترك اعتكافه، وذهب معهم."

(‌‌الحديث السادس والثلاثون،ص:739،ط:دار ابن كثير)

مشکوۃ المصابیح میں ہے: 

"وعن أبي الدرداء قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌ألا ‌أخبركم ‌بأفضل ‌من ‌درجة ‌الصيام ‌والصدقة ‌والصلاة؟» قلنا: بلى. قال: «إصلاح ذات البين وفساد ذات البين هي الحالقة» . رواه أبو داود والترمذي وقال: هذا حديث صحيح."

(كتاب الآداب،باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات،‌‌الفصل الثاني،ج:3،ص:1401،رقم:5038،ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ: "حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلیٰٰٰٰ اللہ علیہ  وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسا عمل نہ بتا دوں جس کے ثواب کا درجہ روزے، صدقے اور نماز کے ثواب سے زیادہ ہے ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ سن کر عرض کیا ہاں ضرور بتا دیں ،آپ  صلیٰٰٰٰ اللہ علیہ  وسلم نے فرمایا آپس میں دشمنی رکھنے والے دو شخصوں کے درمیان صلح کرانا اور دو آدمیوں کے درمیان فساد و نفاق پیدا کرنا ایک ایسی خصلت ہے جو مونڈنے والی ہے، یعنی اس خصلت کی وجہ سے مسلمانوں کے معاملات اور دین میں نقصان و خلل پیدا ہوتا ہے۔"

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"قال الأشراف: المراد بهذه المذكورات النوافل دون الفرائض. قلت: والله أعلم بالمراد إذ قد يتصور أن يكون الإصلاح في فساد يتضرع عليه سفك الدماء، ونهب الأموال، وهتك الحرم أفضل من فرائض هذه العبادات القاصرة مع إمكان قضائها على فرض تركها فهي من حقوق الله التي هي أهون عنده سبحانه من حقوق العباد، فإذا كان كذلك، فيصح أن يقال هذا الجنس من العمل أفضل من هذا الجنس، لكون بعض أفراده أفضل كالبشر خير من الملك والرجل خير من المرأة.........وفي الباب أحاديث كثيرة: منها، ما نقله ميرك عن المنذري، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «ما عمل شيء أفضل من الصلاة وإصلاح ذات البين» ". رواه الأصبهاني. وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «أفضل الصدقة إصلاح ذات البين» ". رواه الطبراني والبزار وفي سنده عبد الرحمن بن زياد بن أنعم، وحديثه هذا حسن لحديث أبي داود والترمذي، عن أبي الدرداء. وعن أبي أيوب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «يا أبا أيوب! ألا أدلك على صدقة يحب الله موضعها؟ " قلت: بلى يا رسول الله بأبي أنت وأمي. قال: " تصلح بين الناس ; فإنها صدقة يحب الله موضعها» ". رواه الأصبهاني. وفي رواية له والطبراني أيضا: " «ألا أدلك على صدقة يحبها الله ورسوله؟ تصلح بين الناس إذا تغاضبوا وتفاسدوا» ". وفي رواية للطبراني، والبزار: " «ألا أدلك على عمل يرضاه الله ورسوله؟ " قال: " من أصلح بين الناس أصلح الله أمره، وأعطاه بكل كلمة تكلم بها عتق رقبة، ورجع مغفورا له ما تقدم من ذنبه."

(كتاب الآداب،باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات،ج:8،ص:3153/ 3154،رقم:5037،ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102080

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں