بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عشرہ ذو الحجۃ میں شوہر کا بیوی کو زیرناف بالوں کی صفائی کا کہنا


سوال

ایام حج میں کیا شوہر اپنی بیوی کو زیر ناف صفائی کا کہہ سکتا ہے، بیوی صاحب ِنصاب ہو اور قربانی بھی کر رہی ہو؟

جواب

واضح رہے کہ جوشخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہو اس کے لیےذی الحجہ کاچاند ہوجانے کے بعد بال اور ناخن نہ کاٹنا مستحب اور باعثِ ثواب امر ہے، یہ حکم ایام حج یعنی (آٹھ ذوالحجہ سے بارہ ذو الحجہ ) تک کے لیے نہیں ہے ،بلکہ ذی الحج کے چاند ہونے کے بعد سے قربانی کرنے تک  کے لیے ہے۔

نیز یہ ممانعت تنزیہی ہے ، لہذا عشرہ ذوالحجہ میں بال اور ناخن نہ کٹوانا مستحب ہے، اور اس کے خلاف عمل کرنا ترکِ اولیٰ ہے، یعنی اگر کسی نے ذوالحجہ شروع ہوجانے کے بعد قربانی سے پہلے بال یا ناخن کاٹ لیے تو اس کا یہ عمل ناجائز یا گناہ نہیں ہوگا، بلکہ خلافِ اولیٰ کہلائے گا۔ اور اگر کوئی عذر ہو یا بال اور ناخن بہت بڑھ چکے ہوں تو ان کے کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ  میں اگر زیر ناف بال بڑھ گئے ہیں تو ان کے کاٹنے میں اور شوہر کے مطالبے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر زیر ناف بال  کاٹے ہوئے چالیس دن سے زیادہ ہوگئے ہیں تو اس صورت میں بالوں کا کاٹناواجب ہے ۔

جامع ترمذی میں ہے:

''عن أم سلمة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من رأى هلال ذي الحجة و أراد أن يضحي فلا يأخذن من شعره و أظفاره''. (١/ ٢٧٨، ط: سعيد)

مرقاة المفاتيح شرح مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"قال التوربشتي: ذهب بعضهم إلى أن النهي عنهما للتشبه بحجاج بيت الله الحرام المحرمين، والأولى أن يقال: المضحي يرى نفسه مستوجبةً للعقاب وهو القتل، ولم يؤذن فيه، ففداها بالأضحية، وصار كل جزء منها فداءً كل جزء منه، فلذلك نهي عن مس الشعر والبشر ؛ لئلا يفقد من ذلك قسط ما عند تنزل الرحمة، وفيضان النور الإلهي، ليتم له الفضائل، ويتنزه عن النقائص".

(کتاب الاضحیة، ج:3، ص:1081، ط:مکتبه امدادیه)

فتاوی شامی میں ہے:

مَطْلَبٌ فِي إزَالَةِ الشَّعْرِ وَالظُّفُرِ فِي عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ

[خَاتِمَةٌ] قَالَ فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ: وَفِي الْمُضْمَرَاتِ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ فِي تَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ وَحَلْقِ الرَّأْسِ فِي الْعَشْرِ أَيْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ قَالَ لَا تُؤَخَّرُ السُّنَّةُ وَقَدْ وَرَدَ ذَلِكَ وَلَا يَجِبُ التَّأْخِيرُ اهـ وَمِمَّا وَرَدَ فِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَأَرَادَ بَعْضُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَايَأْخُذَنَّ شَعْرًا وَلَايُقَلِّمَنَّ ظُفُرًا» فَهَذَا مَحْمُولٌ عَلَى النَّدْبِ دُونَ الْوُجُوبِ بِالْإِجْمَاعِ، فَظَهَرَ قَوْلُهُ: وَلَا يَجِبُ التَّأْخِيرُ إلَّا أَنَّ نَفْيَ الْوُجُوبِ لَا يُنَافِي الِاسْتِحْبَابَ فَيَكُونُ مُسْتَحَبًّا إلَّا إنْ اسْتَلْزَمَ الزِّيَادَةَ عَلَى وَقْتِ إبَاحَةِ التَّأْخِيرِ وَنِهَايَتُهُ مَا دُونَ الْأَرْبَعِينَ فَلَا يُبَاحُ فَوْقَهَا. قَالَ فِي الْقُنْيَةِ: الْأَفْضَلُ أَنْ يُقَلِّمَ أَظْفَارَهُ وَيَقُصَّ شَارِبَهُ وَيَحْلِقَ عَانَتَهُ وَيُنَظِّفَ بَدَنَهُ بِالِاغْتِسَالِ فِي كُلِّ أُسْبُوعٍ، وَإِلَّا فَفِي كُلِّ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، وَلَا عُذْرَ فِي تَرْكِهِ وَرَاءَ الْأَرْبَعِينَ وَيَسْتَحِقُّ الْوَعِيدَ فَالْأَوَّلُ أَفْضَلُ وَالثَّانِي الْأَوْسَطُ وَالْأَرْبَعُونَ الْأَبْعَدُ اهـ."

( كتاب الصلاة، باب العيدين، ۲/ ۱۸۱، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200507

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں