بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 محرم 1447ھ 10 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

ایسے پروڈکٹ تیار کرنا جو معصیت اور غیر معصیت میں دونوں استعمال میں ہوتا ہو


سوال

میں ایک فیکٹری کا مالک ہوں، جو گھریلو استعمال کے مصنوعات تیار کرتی ہے، جن میں ہوم کیئر، ایئر کیئر اور پرسنل کیئر کے شعبے شامل ہے، ہماری مصنوعات میں ہینڈ واش، فیس واش، لیکو ئڈ  ڈٹرجنٹ ، ڈش واش، باڈی اسپرے،انسیکٹ کلر اسپرے وغیرہ شامل ہیں۔

ہماری کمپنی شریعت کے مطابق کاروبار کرتی ہے، اور ہم اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ ہماری تیار کردہ کوئی بھی چیز اسلام یا شریعت کے خلاف نہ ہو، ہم اب اپنی پرنسل کیئر مصنوعات میں شیونگ فوم شامل کرنے پر غور کر رہے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ فقہاء کرام کی اکثریت کے نزدیک داڑھی منڈوانا( خصوصاً مکمل یا مسنون حد سے کم کرنا )ناجائز ہے ،تاہم شیونگ فوم کے دیگر استعمالات بھی ممکن ہیں۔

ہماری گزارش یہ ہے کہ  کیا ہمارے لیے شیونگ فوم تیار کرنا، اور بیچنا شرعی لحاظ سے جائز ہے؟ جبکہ بعض افراد اسے داڑھی منڈوانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جسے اکثریت علماء ناجائز کہتے ہیں ۔

بعض مرد حضرات اسے داڑھی کے کنارے(خط) درست کرنے یا مونچھیں صاف کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں ،ہم اس سے داڑھی منڈوانے کے لیے نہ فروغ دیں گے، نہ ہی تشہیر کریں گے ۔

ہماری نیت ایک عمومی گرومنگ پروڈکٹ فراہم کرنے کی ہے ،نہ کسی غیر شرعی عمل کی حوصلہ افزائی کرنے کی۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر اس پروڈکٹ کا سب سے زیادہ عام استعمال داڑھی منڈوانے کے لیے ہو تو کیا اس سے اس کی تیاری اور فروخت ناجائز ہو جائے گی؟

اگر اسے دیگر جائز مقاصد (مثلاً خط بنانا یا مونچھیں صاف کرنا )کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہو ،تو کیا اس صورت میں اس کی تیارکرنا ،اور فروخت جائز ہوگا؟

کیا ایسی چیز تیار کرنا، اور بیچنا، جو بعض افراد گناہ کے لیے استعمال کرے ،گناہ پر معاونت میں آتا ہے کہ نہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی چیز کا اصل استعمال مباح ہو، اور اس کا استعمال حرام و حلال دونوں طریقوں سے ممکن ہو، تو اس کی تیاری و فروخت بذاتِ خود ناجائز نہیں ہوتی، جب تک کہ اس کے ذریعے کسی گناہ کی صریح معاونت نہ کی جا رہی ہو۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  شیونگ فوم چونکہ مونچھیں کاٹنے، اور ڈاڑھی کے اطراف (خط) بنانے سر منڈانے اور زیر ِ ناف وغیرہ کے بال صاف کرنے  جیسے جائز مقاصد کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، لہٰذا اگر سائل کی نیت اسی عمومی گرومنگ اور جائز استعمال کی ہو، اور اس کی مارکیٹنگ میں ڈاڑھی منڈوانے جیسے ناجائز عمل کی  کسی قسم کی ترغیب نہ دی جائے، تو شرعاً اس پروڈکٹ کی تیاری اور فروخت کی اجازت ہے،اور ایسے پروڈکٹ کی تیاری گناہ پر تعاون کے زمرے میں داخل نہیں ۔

البتہ احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسی اشیاء کی تشہیر میں ہر ممکن طریقے سے غیر شرعی استعمال کی حوصلہ افزائی نہ ہو، تاکہ گناہ پر معاونت کے شبہ سے بھی بچا جا سکے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله تعالى:{وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان} ‌يأمر ‌تعالى ‌عباده ‌المؤمنين ‌بالمعاونة ‌على ‌فعل ‌الخيرات وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى وينهاهم عن التناصر على الباطل والتعاون على المآثم والمحارم."

(سورة المائدة، الآية:2،ج3،ص10،ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويكره) تحريما (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية (وبيع ما يتخذ منه كالحديد) ونحوه يكره لأهل الحرب (لا) لأهل البغي لعدم تفرغهم لعمله سلاحا لقرب زوالهم، بخلاف أهل الحرب زيلعي.قلت: وأفاد كلامهم أن ‌ما ‌قامت ‌المعصية ‌بعينه ‌يكره ‌بيعه ‌تحريما وإلا فتنزيها نهر.

مطلب في كراهة بيع ما تقوم المعصية بعينه (قوله: تحريما) بحث لصاحب البحر حيث قال: وظاهر كلامهم أن الكراهة تحريمية لتعليلهم بالإعانة على المعصية ط (قوله: من أهل الفتنة) شمل البغاة وقطاع الطريق واللصوص بحر (قوله: إن علم) أي إن علم البائع أن المشتري منهم (قوله: لأنه إعانة على المعصية) ؛ لأنه يقاتل بعينه، بخلاف ما لا يقتل به إلا بصنعة تحدث فيه كالحديد، ونظيره كراهة بيع المعازف؛ لأن المعصية تقام بها عينها، ولا يكره بيع الخشب المتخذة هي منه، وعلى هذا بيع الخمر لا يصح ويصح بيع العنب. والفرق في ذلك كله ما ذكرنا فتح ومثله في البحر عن البدائع، وكذا في الزيلعي لكنه قال بعده وكذا لا يكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكرا وإنما المنكر في استعمالها المحظور. اهـ.

قلت: لكن هذه الأشياء تقام المعصية بعينها لكن ليست هي المقصود الأصلي منها، فإن عين الجارية للخدمة مثلا والغناء عارض فلم تكن عين النكر، بخلاف السلاح فإن المقصود الأصلي منه هو المحاربة به فكان عينه منكرا إذا بيع لأهل الفتنة، فصار المراد بما تقام المعصية به ما كان عينه منكرا بلا عمل صنعة فيه، فخرج نحو الجارية المغنية؛ لأنها ليست عين المنكر، ونحو الحديد والعصير؛ لأنه وإن كان يعمل منه عين المنكر لكنه بصنعة تحدث فلم يكن عينه، وبهذا ظهر أن بيع الأمرد ممن يلوط به مثل الجارية المغنية فليس مما تقوم المعصية بعينه، خلافا لما ذكره المصنف والشارح في باب الحظر والإباحة، ويأتي تمامه قريبا (قوله: يكره لأهل الحرب) مقتضى ما نقلناه عن الفتح عدم الكراهة، إلا أن يقال: المنفي كراهة التحريم والمثبت كراهة التنزيه؛ لأن الحديد وإن لم تقم المعصية بعينه لكن إذا كان بيعه ممن يعمله سلاحا كان فيه نوع إعانة تأمل (قوله: نهر) عبارته: وعرف بهذا أنه لا يكره بيع ما لم تقم المعصية به كبيع الجارية المغنية والكبش النطوح والحمامة الطيارة والعصير والخشب الذي يتخذ منه العازف، وما في بيوع الخانية من أنه يكره بيع الأمرد من فاسق يعلم أنه يعصي به مشكل.

والذي جزم به في الحظر والإباحة أنه لا يكره بيع جارية ممن يأتيها في دبرها أو بيع الغلام من لوطي وهو الموفق لما مر. وعندي أن ما في الخانية محمول على كراهة التنزيه والمنفي هو كراهة التحريم، وعلى هذا فيكره في الكل تنزيها، وهو الذي إليه تطمئن النفس؛ لأنه تسبب في الإعانة، ولم أر من تعرض لهذا، والله تعالى الموفق اهـ

(باب البغاۃ،ج4،ص268،ط سعید)

الموسوعة الفقهية الكويتية:

"وطرح بعض الحنفية هذا الضابط: وهو أن ‌ما ‌قامت ‌المعصية ‌بعينه، ‌يكره ‌بيعه ‌تحريما (كبيع السلاح من أهل الفتنة) وما لم تقم بعينه يكره تنزيها."

(‌‌أسباب النهي غير العقدية،‌‌بيع ما يقصد به فعل محرم،ج9،ص213،وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611101490

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں