بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اساتذہ کی تنخواہ سے سیکیورٹی کٹوتی کا حکم


سوال

میں ایک پرائیویٹ ادارہ میں ٹیچنگ کرتا ہوں ،ادارے کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا کہ وہ ہر ماہ تنخواہ میں سے کچھ کٹوتی کریں گے، جب تک ایک مہینہ کی تنخواہ نہیں ہو جاتی۔ اور وہ تنخواہ سیکیورٹی کے طور رکھی جائے گی ،یعنی اگر میں نے ادارہ چھوڑنے سے ایک مہینہ پہلے نہ بتایا تو کٹوتی واپس نہیں کی جائے گی۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں ایک دن یا دو دن پہلے ادارہ کو بتا کے ادارہ چھوڑ دوں جہاں مجھے اچھی تنخواہ ملے تو وہ کٹوتی مجھے ملنی چاہیے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ کسی ادارے میں اگر ملازم کے ساتھ وقت دینے کی بنیاد پر اجرت طے ہوجائے، تو وہ ملازم اجیر خاص کہلاتا ہے اور اجیر خاص مقررہ وقت ادارے میں حاضر رہنے اور خود کو مذکورہ کام کے لئے سپرد کردینے سے اجرت کا مستحق ہوتا ہے،اور تعلیمی ادارے کےاساتذہ کی حیثیت  فقہی طور پر اجیرِ خاص کی ہے اور اجیرِ خاص مقررہ وقت میں حاضر رہنے سے اجرت کا مستحق بن جاتا ہے ، لہذا جس قدر  وقت کوئی استاد  اسکول کو دے گا ادارے پراتنے وقت کی تنخواہ لازم ہوجائے گی اور ادارے کو  اس میں کسی قسم کی کٹوتی کا اختیار نہیں ہوگا۔

اورعقد اجارہ کی رو سے مستاجر اور اجیر خاص کے درمیان مدت اجارہ کی تعیین ضروری ہے اور مقررہ مدت پوری ہونے سے پہلے کسی معتبر ومعقول عذر کے بغیر کسی کیلئے عقد اجارہ فسخ کرنا جائزنہیں ۔لہذا کسی ادار ے اور ملازم کے مابین ہونے والے معاہدہ ملازمت میں مفاد عامہ کی خاطر عرف کے مطابق یہ شرط لگا نا جائز ہے کہ ملازم مقررہ مدت اختتام سے قبل طے شدہ طریقہ سے اطلاع دیئے بغیر ملازمت چھوڑ کر نہیں جائے گا ۔

لہذاصورت مسئولہ میں ادارہ کی انتظامیہ اور اساتذہ کے درمیان ہونے والے معاہدے میں یہ شرط لگانا شرعا جائز ہے کہ "استاذادارہ  چھوڑنے سے ایک ماہ پہلے ادارہ کے انتظامیہ کو باخبر کرے گا "کیونکہ تعلیمی ادارہ میں بچوں  کے اوقات کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے یہ شرط مصلحت عامہ  کا تقاضہ ہے اور آج کل عرف میں بھی یہ رائج ہے ۔البتہ ادارے کی طرف سے اساتذہ کی تنخواہوں سے مقررہ مقدار میں  رقم سیکیورٹی کے طور پر منہا کرناجائز ہے جوکہ  درحقیقت  ادارے کے ذمے اساتذہ کا دین ہوتا ہے، اور معاہدہ ملازمت  کے اختتام پر یہ رقم دین ہونے کی وجہ سے اساتذہ کوواپس کرنالازم ہے ،لہذااگرسائل ادارہ چھوڑنے سے ایک دودن پہلےانتظامیہ کاآگاہ کرتاہے توبھی ادارہ پراس کی جمع شدہ رقم واپس کرنا لازم ہے، ورنہ ادارہ والے گناہ گار ہوں گے اورادارہ کے لئے اس رقم کو استعمال میں لانا جائز نہیں ہوگا۔لیکن سائل کا معاہدہ کی خلاف ورزی کرنا ، اور طے شدہ وقت سے پہلے ادارہ کو چھوڑ کر چلاجانا، وعدہ خلافی کے زمرے میں آنے  وجہ سے وہ گناہ کا مرتکب ہوگا ۔

الدر المختار میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا."

(کتاب الاجارۃ ،باب ضمان الاجیر،ج:6،ص:72،ط:سعید)

مسند احمد میں ہے:

"حدثنا أسود بن عامر، قال: أخبرنا أبو بكر، عن عاصم، عن أبي وائل، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌من ‌اقتطع ‌مال امرئ مسلم بغير حق، لقي الله عز وجل وهو عليه غضبان."

(ج:7،ص:59،رقم :3946ط: مؤسسۃ الرسالۃ)

ترجمہ:"جس نےنا حق کسی مسلمان کا مال  روک لیا وہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس پر غصہ ہونگے (اور اس سے ناراض ہوں گے )۔"

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"الأجير يستحق الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل ولا يشترط عمله بالفعل ولكن ليس له أن يمتنع عن العمل وإذا امتنع لا يستحق الأجرة.ومعنى كونه حاضرا للعمل أن يسلم نفسه للعمل ويكون قادرا وفي حال تمكنه من إيفاء ذلك العمل.أما الأجير الذي يسلم نفسه بعض المدة، فيستحق من الأجرة ما يلحق ذلك البعض من الأجرة مثال ذلك كما لو آجر إنسان نفسه من آخر ليخدمه سنة على أجر معين فخدمه ستة أشهر ثم ترك خدمته وسافر إلى بلاد أخرى ثم عاد بعد تمام السنة وطلب من مخدومه أجر ستة الأشهر التي خدمه فيها؛ فله ذلك وليس لمخدومه أن يمنعه منها بحجة أنه لم يقض المدة التي استأجره ليخدمه فيها."

(كتاب الإجارة، الباب الأول في بيان الضوابط العمومية للإجارة، المادة: 425، ج: 1، ص: 458، ط: دارالجیل)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، باب التعزير، ج:4، ص:61، ط: سعید)

شرح المجلہ میں ہے:

"لایجوز لأحد أن یاخذ مال أحد بلا سبب شرعي و إن أخذ ولو علی ظن أنہ ملکه وجب علیه ردہ عینا إن کا ن قائما وإلا فیضمن قیمته إن کان قیمیا."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادۃ:97، ج:1، ص:51 ، ط: رشدیه) 

قرآنِ کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

"وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا."(سورۃ الإسراء: 34)

ترجمہ: ’’اور عہد (مشروع) کو پورا کیا کرو، بیشک (ایسے) عہد کی باز پرس ہونے والی ہے۔‘‘

(از: بیان القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100559

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں