بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عصر اور مغرب کے درمیان سونے کا حکم


سوال

  عصر اور مغرب کے درمیان  سونا کیسا ہے؟اور اگر بچوں کو عصر اور مغرب کے درمیان  نیند آجائے تو ان کو بھی سونے سے روکنا چاہیے ؟

جواب

عصر سے مغرب کا وقت بڑا با برکت ہے،اس لیے اس وقت کو  ذکر و تلاوت وغیرہ میں صرف کرنا چاہیے،  بلاعذر عصر سے مغرب کے درمیان سونے کا معمول بنالینا اچھا نہیں ہے؛ کیوں کہ عصر سے مغرب کے درمیان وقت کم ہونے کی وجہ سے مغرب کی نماز یا جماعت نکلنے کا اندیشہ رہے گا، البتہ کبھی کبھار کسی عذر (بیماری، تھکن یا بے خوابی وغیرہ) کی وجہ سے اگر عصر اور مغرب کے درمیان سونے کا تقاضہ  ہو تو شرعاً اس وقت سونے میں کوئی حرج نہیں ہے،البتہ مغرب کی نماز سے پہلے نیند سے بیدار ہوجائے۔

یہ حکم عصر کے وقت داخل ہونے کے بعد سے ہے، بلکہ عصر کا وقت داخل ہونے کے بعد نماز سے پہلے سونے کی صورت میں عصر کی نماز کے فوت ہوجانے کا بھی اندیشہ ہے، اس لیے اس میں کراہت اور بھی زیادہ ہوگی۔

نیز بچوں کو بھی عصر کے بعد نہیں سلانا چاہیے ،دن کے اوقات میں ان کو سلانے کی کوشش کرنی چاہیے،البتہ اگربچہ بیمار ہو یا کوئی عذر ہو تو اس وقت سونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

المعتصر من المختصر من المشکل الآثار میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه لم تحبس الشمس على أحد إلا ليوشع لأن حبسها عند الغروب غير الرد بعد الغروب ........وفيه إباحة النوم بعد العصر وإن كان مكروهًا عند بعض بما روى عن النبي صلى الله عليه وسلم: "من نام بعد العصر فاختلص عقله فلايلومن إلا نفسه"؛ لأن هذا منقطع وحديث أسماء متصل، و يمكن التوفيق بأن نفس النوم بعد العصر مذموم، و أما نوم النبي صلى الله عليه وسلم كان لأجل وحي يوحى إليه، و ليس غيره كمثله فيه، و الذي يؤيد الكراهة قول عمرو بن العاص: النوم منه خرق، و منه خلق، ومنه حمق، يعني: الضحى و القائلة وعند حضور الصلوات؛ و لأن بعد العصر يكون انتشار الجن، و في الرقدة يكون الغفلة، و عن عثمان: "الصبحة تمنع الرزق"، و عن ابن الزبير: "أن الأرض تعج إلى ربها من نومة العلماء بالضحى مخافة الغفلة عليهم"، فندب اجتناب ما فيه الخوف."

(باب ما جاء في معجزاته صلى الله عليه وسلم، ج: 1، ص: 10 ، ط: عالم الكتاب بيروت)

الفقہ الاسلامی و أدلتہ للزحیلی میں ہے:

"ويكره النوم بعد العصر لحديث: "من نام بعد العصر، فاختل عقله، فلا يلومن إلا نفسه".

و في حاشيته:

(3) رواه أبو يعلى الموصلي عن عائشة، لكنه حديث ضعيف".

(الباب الأول  الطهارات ،النوم ، ج: 1 ، ص: 470، دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں