بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عصر کی نماز مثلِ ثانی سے پہلے پڑھنے کا حکم


سوال

کیا فقہ حنفی کے مطابق عصر کی نماز اہلِ حدیث کے وقت کے مطابق مثلِ ثانی سے پہلے پڑھنا جائز ہے؟

جواب

 ظہر کے آخری وقت اور عصر کے ابتدائی وقت کے بارے میں احناف کا مفتیٰ بہ  قول یہی ہے کہ  ظہر کا وقت اس وقت ختم ہوتا ہے جب ہر چیز کا سایہ ، اُس کے سایۂ اصلی کے علاوہ دو مثل ہوجائے اور اس کے بعد عصر کاوقت داخل ہوتا ہے، لہٰذا ہر چیز کا سایہ دو مثل ہونے سے پہلے عصر کی نماز پڑھنا وقت سے پہلے نماز پڑھنا ہے، لہٰذا مثلِ ثانی کے بعد ہی عصر کی نماز پڑھے،اس سے پہلے نہ پڑھے۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(ووقت الظهر من زواله) أي ميل ذكاء عن كبد السماء (إلى بلوغ الظل مثليه) وعنه مثله، وهو قولهما وزفر والأئمة الثلاثة. قال الإمام الطحاوي: وبه نأخذ. وفي غرر الأذكار: وهو المأخوذ به. وفي البرهان: وهو الأظهر. لبيان جبريل. وهو نص في الباب. وفي الفيض: وعليه عمل الناس اليوم وبه يفتى.

قال ابن عابدين: (قوله: إلى بلوغ الظل مثليه) هذا ظاهر الرواية عن الإمام نهاية، وهو الصحيح بدائع ومحيط وينابيع، وهو المختار غياثية واختاره الإمام المحبوبي وعول عليه النسفي وصدر الشريعة تصحيح قاسم واختاره أصحاب المتون، وارتضاه الشارحون، فقول الطحاوي وبقولهما نأخذ لا يدل على أنه المذهب، وما في الفيض من أنه يفتى بقولهما في العصر والعشاء مسلم في العشاء فقط على ما فيه، وتمامه في البحر... (قوله: وهو نص في الباب) فيه أن الأدلة تكافأت ولم يظهر ضعف دليل الإمام، بل أدلته قوية أيضا كما يعلم من مراجعة المطولات وشرح المنية. وقد قال في البحر: لا يعدل عن قول الإمام إلى قولهما أو قول أحدهما إلا لضرورة من ضعف دليل أو تعامل."

(كتاب الصلاة، 359/1، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101702

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں